Tafseer-e-Baghwi - Al-Fath : 19
وَّ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً یَّاْخُذُوْنَهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا
وَّمَغَانِمَ : اور غنیمتیں كَثِيْرَةً : بہت سی يَّاْخُذُوْنَهَا ۭ : انہوں نے وہ حاصل کیں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَزِيْزًا : غالب حَكِيْمًا : حکمت والا
(اے پیغمبر) ﷺ جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے تو خدا ان سے خوش ہوا اور جو (صدق و خلوص) انکے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کرلیا تو ان پر تسلی نازل فرمائی اور انہیں جلد فتح عنایت کی
درخت کے نیچے بیعت کرنے والے صحابہ کرام کی تعداد 18 ۔” لقد ؓ عن المومنین اذ یبایعونک “ حدیبیہ میں اس بات پر کہ وہ قریش سے قتال کریں گے اور بھاگیں گے نہیں۔ ” تحت الشجرۃ “ اور یہ ببول کا درخت تھا۔ سعید ابن المسیب (رح) فرماتے ہیں کہ میرے والد نے بیان کیا ہے یہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے درخت کے نیچے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی۔ فرماتے ہیں پس جب ہم آئندہ سال نکلے تو ہم اس کو بھول گئے، پس ہم اس پر قادر نہ ہوسکے اور روایت کیا گیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ درخت کے ختم ہونے کے بعد وہاں سے گزرے تو فرمایا کہاں تھا ؟ تو بعض کہنے لگے یہاں تھا اور بعض کہنے لگے وہاں تھا۔ پس جب ان کا اختلاف زیادہ ہوگیا تو آپ ؓ نے فرمایا تم چلو درخت جا چکا ہے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ ؓ کو فرماتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حدیبیہ کے دن کہا تم تمام زمین والوں میں سے بہتر ہو اور ہم چودہ سو تھے اور اگر میں آج دیکھ سکتا ہوں تو تمہیں اس درخت کی جگہ دکھاتا۔ ابوالزبیر نے خبر دی ہے کہ انہوں نے جابر ؓ کو سنا کہ ان سے پوچھا جارہا ہے کہ وہ حدیبیہ کے دن کتنے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا چودہ سو تو ہم نے آپ (علیہ السلام) کی بیعت کی اور عمر ؓ آپ (علیہ السلام) کے ہاتھ کو درخت کے نیچے پکڑے ہوئے تھے اور وہ ببول کا درخت تھا۔ پس ہم سب نے آپ (علیہ السلام) سے بیعت کی سوائے جد بن قیس انصاری کے کہ وہ اپنے اونٹ کے پیٹ کے نیچے چھپ گیا۔ سالم نے جابر ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہم پندرہ سو تھے اور عبداللہ بن ابی اوفی ؓ فرماتے ہیں کہ درخت والے تیرہ سو افراد تھے۔ اور اس بیعت کا سبب جو محمد بن اسحاق نے اہل علم سے ذکر کیا ہے وہ یہ رسول اللہ ﷺ نے جب حدیبیہ پر پڑائو ڈالا تو فراش بن امیہ خزاعی ؓ کو بلایا اور ان کو قریش کی طرف بھیجا اور اپنے ایک اونٹ پر سوار کیا جس کو ثعلب کہا جاتا تھا تاکہ وہ قریش کے معززین کو بتائیں کہ آپ (علیہ السلام) کس مقصد کے لئے آئے ہیں تو ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے اونٹ کی ٹانگیں کاٹ دیں اور فراش ؓ کے قتل کا ارادہ کیا تو مختلف قبیلوں کے لوگوں نے ان کو اس کام سے روکا تو انہوں نے فراش ؓ کو چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو بلایا تاکہ ان کو مکہ کی طرف بھیجیں تو انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ مجھے قریش سے اپنی جان پر خوف ہے اور بنوعدی بن کعب میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو ان کو مجھ سے رو کے اور تحقیق قریش میری ان سے دشمنی اور میری ان کے بارے میں سختی کو خوب جانتے ہیں لیکن میں آپ (علیہ السلام) کی ایسے شخص پر رہنمائی کرتا ہوں جو قریش کے یہاں مجھ سے زیادہ معزز ہیں وہ عمان بن عفان ؓ ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان ؓ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور ان کو ابوسفیان اور معززین قریش کی طرف بھیجا تاکہ وہ ان کو بتائیں کہ نبی کریم ﷺ لڑائی کے لئے نہیں آئے۔ آپ (علیہ السلام) تو صرف اس بیت اللہ کی زیارت اور اس کی حرمت کی تعظیم کرنے آئے ہیں۔ تو حضرت عثمان ؓ تعالیٰ عنہ مکہ کی طرف گئے تو آپ ؓ کی ملاقات مکہ میں داخل ہوتے ہی ابان بن سعید بن عاص سے ہوگئی یا مکہ میں داخل ہونے سے پہلے تو آپ ؓ اپنی سواری سے اتر آئے اور اس کو اپنے ساتھ سوار کرلیا۔ پھر اس کو اپنا ردیف بنایا اور اس نے آپ ؓ کو پناہ دی حتیٰ کہ آپ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے پیغام کو پہنچادیا تو جب حضرت عثمان ؓ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کا پیغام پہنچا کہ فارغ ہوئے تو ابوسفیان اور دیگر پیغام کہ پہنچا دیا تو جب حضرت عثمان ؓ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کا پیغام پہنچا کہ فارغ ہوئے تو ابوسفیان اور دیگر معززین قریش نے حضرت عثمان ؓ کو کہا اگر آپ چاہیں تو بیت اللہ کا طواف کرلیں تو حضرت عثمان ؓ نے جواب دیا میں ایسا نہ کروں گا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کا طواف کرلیں تو قریش نے حضرت عثمان ؓ تعالیٰ عنہ کو اپنے پاس روک لیا اور رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمان ؓ تعالیٰ عنہ قتل کردیئے گئے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم یہاں سے نہیں ہٹیں گے جب تک اس قوم سے مقابلہ نہ کرلیں اور لوگوں کو بیعت کی طرف بلایا۔ پس بیعت رضوان درخت کے نیچے ہوئی اور لوگ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے موت پر بیعت کی۔ بکیر بن اشجع (رح) فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام ؓ نے حضور ﷺ سے موت پر بیعت کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلکہ اس پر بیعت کرو کہ جتنی تم طاقت رکھو گے۔ جابر بن عبداللہ اور معقل بن یسار ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ ﷺ سے موت پر بیعت نہیں کی لیکن ہم نے یہ بیعت کی تھی کہ ہم نہیں بھاگیں گے۔ پہلا شخص جس نے بیعت رضوان کی وہ بنی اسد کا ایک شخص تھا جس کو ابوسنان بن وہب کہا جاتا تھا اور حاضرین میں سے کوئی اس بیعت سے پیچھے نہیں رہا، سوائے جد بن قیس بنو مسلمہ کا بھائی۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ گویا کہ میں اس کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنی اونٹنی کے پیٹ کو چمٹا ہوا ہے اس کے ذریعے لوگوں سے چھپ رہا ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس خبر آئی کہ عثمان ؓ تعالیٰ عنہ کے بارے میں جو پہلے خبر آئی وہ جھوٹی تھی۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت کی ان میں سے کوئی جہنم میں داخل نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا قول ” فعلم مافی قلوبھم “ صدق اور وفاء میں سے ” فانزل السکینۃ “ اطمینان اور رضا۔ ” علیھم واثابھم فتحاقریبا “ یعنی فتح خیبر۔
Top