Tafseer-e-Baghwi - Al-Hujuraat : 11
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّ١ۚ وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ١ؕ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ١ۚ وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا يَسْخَرْ : نہ مذاق اڑائے قَوْمٌ : ایک گروہ مِّنْ قَوْمٍ : (دوسرے) گروہ کا عَسٰٓى : کیا عجب اَنْ يَّكُوْنُوْا : کہ وہ ہوں خَيْرًا مِّنْهُمْ : بہتر ان سے وَلَا نِسَآءٌ : اور نہ عورتیں مِّنْ نِّسَآءٍ : عورتوں سے ، کا عَسٰٓى : کیا عجب اَنْ يَّكُنَّ : کہ وہ ہوں خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۚ : بہتر ان سے وَلَا تَلْمِزُوْٓا : اور نہ عیب لگاؤ اَنْفُسَكُمْ : باہم (ایکدوسرے) وَلَا تَنَابَزُوْا : اور باہم نہ چڑاؤ بِالْاَلْقَابِ ۭ : بُرے القاب سے بِئْسَ الِاسْمُ : بُرا نام الْفُسُوْقُ : گناہ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ : ایمان کے بعد وَمَنْ : اور جو ، جس لَّمْ يَتُبْ : توبہ نہ کی (باز نہ آیا) فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ : وہ ظالم (جمع)
مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تم رحمت کی جائے
انما المومنون اخوۃ کی تفسیر اور شان نزول 10 ۔” انما المومنون اخوۃ “ دین اور ولایت میں ” فاصلحوا بین اخویکم “ جب وہ دونوں اختلاف کریں اور لڑنے لگیں اور یعقوب (رح) نے ” بین اخوتکم “ ناء کے ساتھ جمع کا صیغہ پڑھا ہے۔ ” واتقوا اللہ “ پس تم اس کی نافرمانی نہ کرو اور اس کے امر کی مخالفت نہ کرو ” لعلکم ترحمون “ سالم (رح) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کو گالیاں دیتا ہے جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری کرتے ہیں اور جو کسی مسلمان سے کوئی غم ومشقت دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں اس سے قیامت کے دن کی مشقتوں میں سے مشقت دور کریں گے اور جو کسی مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیبوں پر پردہ ڈالیں گے۔ اور ان دو آیتوں میں اس پر دلیل ہے کہ بغی ایمان کے نام کو زائل نہیں کرتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا نام مومنین بھائی رکھا ہے، ان کے باغی ہونے کے باوجود۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو حارث اعور سے روایت کی گئی ہے کہ علی بن ابی طالب ؓ سے سوال کیا گیا اور وہ اہل جمل اور صفین کے قتال میں پیشوا تھے۔ کیا وہ مشرک ہیں ؟ تو آپ ؓ نے فرمایا نہیں۔ شرک سے وہ لوگ بھاگے ہیں۔ پھر پوچھا گیا، کیا وہ منافق ہیں ؟ تو فرمایا نہیں۔ بیشک منافقین اللہ کا ذکر نہیں کرتے مگر تھوڑا۔ کہا گیا پھر ان کا کیا حال ہے ؟ فرمایا ہمارے بھائیوں نے ہم پر بغاوت کی اور شرعی باغی وہ شخص ہے جو عادل امام سے خروج کرے۔ پس جب ایک جماعت جمع ہوجائے ان کے لئے قوت و طاقت ہو، اور وہ عادل امام کی اطاعت سے کسی محتمل تاویل کی وجہ سے رک جائیں اور اپنا امام مقرر کرلیں تو ان کے بارے میں حکم یہ ہے کہ امام ان کی طرف لشکر بھیجے اور ان کو اپنی اطاعت کی طرف بلائے۔ پس اگر وہ کوئی اشکال ظاہر کریں تو اس کو زائل کرے۔ اور اگر وہ کوئی اشکال نہ ذکر کریں اور اپنی بغاوت پر اصرار کریں تو امام ان سے لڑائی کرے گا حتیٰ کہ وہ اس کی اطاعت کی طرف لوٹ آئیں۔ پھر ان کے قتال کا حکم یہ ہے کہ ان میں سے پیٹھ پھیر کر بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کیا جائے گا اور ان کے قیدیوں کو قتل نہیں کیا جائے گا اور ان زخمیوں کو فوراً نہیں مارا جائے گا۔ حضرت علی ؓ کے منادی نے جنگ جمل کے دن آواز لگائی۔ خبردار ! پیٹھ پھیر کر بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کیا جائے گا اور زخمی کو قتل نہیں کیا جائے گا اور جنگ صفین میں حضرت علی ؓ کے پاس ایک قیدی لایا گیا تو آپ ؓ نے فرمایا : میں تجھے باندھ کر قتل نہ کروں گا۔ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں اور دونوں گروہوں میں سے کوئی دوسرے کی جان ومال کا جو نقصان کردے اس کی کوئی ضمان نہ ہوگی۔ ابن شہاب (رح) فرماتے ہیں کہ اس فتنہ میں خون ریزی ہوئی۔ بعض میں قاتل و مقتول کو پہچانا گیا اور بہت سارا مال ضائع ہو۔ پھر لوگوں کے درمیان جنگ ختم ہوئی اور ان پر حکم جاری ہوا۔ پس مجھے معلوم نہیں کہ ان میں سے کسی سے قصاص لیا گیا ہو اور کسی کے مال کا تاوان لیا گیا ہو۔ بہرحال جن باغیوں میں یہ تین شرائط جمع نہ ہوں، بایں طور کہ وہ تھوڑی سی جماعت ہو ان کے لئے روکنے کی قوت نہ ہو یا کوئی تاویل نہ ہو یا انہوں نے امام مقرر نہ کیا ہو تو ان کی کچھ نہیں کہا جائے گا۔ اگر وہ مسلمانوں کو نہ چھیڑیں اور قتال نہ کریں۔ پس اگر وہ ایسا کریں تو وہ قطاع الطریق (ڈاکو) ہیں اور روایت کیا گیا ہے کہ حضرت علی ؓ نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ مسجد کے کونے پر کہہ رہا ہے ” لا حکم الا للہ “ کہ فیصلہ صرف اللہ تعالیٰ کا ہے تو حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ کلمہ حق ہے اس سے مراد باطل لی گئی ہے۔ تمہارے لئے ہم پر تین چیزیں ہیں کہ ہم تمہیں اللہ کی مساجد سے نہ روکیں گے کہ تم اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو اور ہم تمہیں مال فئی سے نہ روکیں گے جب تک تمہارے ہاتھ میں ہمارے ہاتھوں کے ساتھ ہوں گے اور ہم تمہارے سے قتال میں پہل نہ کریں گے۔
Top