Tafseer-e-Baghwi - Al-Israa : 69
اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى١ؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يَغُضُّوْنَ : پست رکھتے ہیں اَصْوَاتَهُمْ : اپنی آوازیں عِنْدَ : نزدیک رَسُوْلِ اللّٰهِ : اللہ کا رسول اُولٰٓئِكَ : یہ وہ لوگ الَّذِيْنَ : جو، جن امْتَحَنَ اللّٰهُ : آزمایا ہے اللہ نے قُلُوْبَهُمْ : ان کے دل لِلتَّقْوٰى ۭ : پرہیزگاری کیلئے لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ : ان کیلئے مغفرت وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ : اور اجر عظیم
اے اہل ایمان ! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو
2 ۔” یایھا الذین امنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ولا تجھرو الہ بالقول کجھر بعضکم لبعض “ ان کو حکم دیا کہ وہ آپ (علیہ السلام) کی تعظیم کریں اور آپ (علیہ السلام) کے پاس اپنی آوازیں بلند نہ کریں اور آپ (علیہ السلام) کو ایسے آواز نہ دیں جیسے وہ آپس میں ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں۔ ” ان تحبط اعمالکم “ تاکہ تمہاری نیکیاں ضائع نہ ہوجائیں اور کہا گیا اس خوف سے کہ تمہاری نیکیاں ضائع ہوجائیں۔ ” وانتم لاتشعرون “۔ نبی کریم ﷺ کے سامنے آواز بلند کرنے کے متعلق آیات حضرت انس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ آیت ” یایھا الذین امنوا لا ترفعوا اصواتکم “ کے نزول کے کے بعد حضرت ثابت بن قیس ؓ اپنے گھر میں بیٹھ رہے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری سے رک گئے اور کہنے لگے : میں دوزخی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد بن معاذ ؓ سے دریافت کیا ابو عمر ثابت ؓ کا کیا حال ہے ؟ کیا وہ بیمار ہوگئے ؟ حضرت سعد ؓ نے عرض کیا (یارسول اللہ) وہ میرے ہمسائے ہیں مجھے تو ان کے بیمار ہونے کا علم نہیں، کوئی اور وجہ ہوگی۔ حضرت سعد حضرت ثابت ؓ کے پاس آئے اور رسول اللہ ﷺ کا قول ان سے بیان کیا۔ حضرت ثابت ؓ نے کہا : یہ آیت نازل ہوگئی ہے اور آپ لوگ جانتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ سے تم سب سے زیادہ اونچی آواز سے کلام کرتا ہوں۔ اس لئے میں دوزخی ہوگیا۔ سعد ؓ نے ثابت ؓ کی یہ بات رسول اللہ ﷺ سے جاکر عرض کردی۔ فرمایا : (وہ دوزخی نہیں) بلکہ اہل جنت میں سے ہے۔ ابن جریر نے محمد بن ثابت بن قیس بن شماس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ بغوی نے اس کا ذکر کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ثابت ؓ راستہ ہی میں بیٹھ کر رونے لگے۔ حضرت عاصم بن عدی ؓ ادھر سے گزرے اور رونے کا سبب دریافت کیا۔ حضرت ثابت ؓ نے کہا یہ آیت نازل ہوگئی ہے اور مجھے خوف ہے کہ کہیں میرے ہی متعلق نازل ہوئی کیونکہ میری آواز اونچی ہے، مجھے اپنے اعمال کے برباد ہوجانے اور دوزخی ہوجانے کا ڈر ہے۔ حضرت عاصم نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر یہ بات عرض کردی اور ادھر ثابت ؓ پر گریہ کا ایسا غلبہ ہوا کہ انہوں نے گھر جاکر اپنی بی بی جمیلہ بنت عبداللہ بن ابی سلول سے کہا : جب میں اپنے گھوڑے کے بندھنے کی جگہ جائوں تو گھوڑے کا دھنکنا مضبوط طور پر میرے پائوں میں کس کر کھونٹے سے باندھ دینا۔ بیوی نے ایسا ہی کیا۔ حضرت ثابت ؓ نے کہا اب میں باہر نہیں نکلوں گا، یہاں تک کہ مجھے موت آجائے یارسول اللہ ﷺ مجھ سے راضی ہوجائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عاصم کو حکم دیا، جاکر ثابت کو بلا لائو۔ حسب الحکم حضرت عاصم ؓ اول اسی جگہ گئے جہاں ثابت ؓ کو دیکھا تھا۔ جب وہاں نہ ملے تو ان کے گھر گئے جاکر دیکھا کہ ثابت گھوڑے کی کوٹھری میں بند ہیں۔ عاصم نے کہا یارسول اللہ ﷺ تم کو طلب فرما رہے ہیں۔ ثابت ؓ نے کہا دھنکنا توڑ دو ۔ اس کے بعد دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : ثابت تمہارے رونے کی کیا وجہ ہے ؟ حضرت ثابت ؓ نے کہا حضور ﷺ میری آواز اونچی ہے، مجھے خوف ہے کہ یہ آیت میرے ہی متعلق نازل ہوئی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ قابل ستائش زندگی گزارو گے اور شہادت کی موت مارے جائو گے اور جنت میں داخل ہوجائو گے۔ ثابت ؓ نے کہا میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خوشخبری پر راضی ہوں۔ میں اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے کبھی اونچی آواز نہیں کروں گا۔ اس پر یہ آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top