Tafseer-e-Baghwi - Al-Maaida : 102
قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِهَا كٰفِرِیْنَ
قَدْ سَاَلَهَا : اس کے متعلق پوچھا قَوْمٌ : ایک قوم مِّنْ قَبْلِكُمْ : تم سے قبل ثُمَّ : پھر اَصْبَحُوْا : وہ ہوگئے بِهَا : اس سے كٰفِرِيْنَ : انکار کرنے والے (منکر)
اسی طرح کی باتیں تم سے پہلے لوگوں نے بھی پوچھی تھیں (مگر جب بتائی گئیں تو) پھر ان سے منکر ہوگئے۔
آیت نمبر 103, 102 تفسیر : (قدس سالھا قوم من قلبکم ایسی باتیں پوچھ چکی ہے ایک جماعت تم سے پہلے) جیسے قوم ثمود نے اونٹنی اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے دستر خوان کا سوال کیا ( ثم اصبحوا بھا کفرین پھر ہوگئے ان باتوں سے منکر) پس ہلاک کیے گئے۔ ابوثعلبہ خشنی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ چیزیں فرض کی ہیں ان کو ضائع نہ کرو اور کئی اشیاء سے منع کیا۔ ان کو نہ کرو اور کئی حدود مقرر کی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور کئی چیزوں سے بغیر نسیان کے درگزر کیا ان کے بارے میں بحث نہ کرو۔ (ماجعل اللہ من م بحیرۃ نہیں مقرر کیا اللہ نے بحیرہ) نہ اللہ نے اتارا اور نہ اس کا حکم دیا ( ولا سائبۃ ولا وصیلۃ ولا خام اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حامی کو) بحیرہ سائبہ وصیلہ حام کی تفسیر ابن عباس ؓ نے ان اشیاء کا بیان یہ کیا کہ بحیرہ اور اونٹنی کہ جب پانچ بچے جن لیتی تو اس کے کان کو کاٹ دیتے اور اس پر نہ بوجھ لادتے اور نہ خود سوار ہوتے اور اس کی اون نہ کاٹتے اور اس کو پانی اور چراگاہ سے بھی نہ روکتے اور اس کے پانچویں بچے کو دیکھتے اگر وہ نر ہوتا تو اس کے نحر کرکے مرد و عورت کھاتے اور اگر مادہ ہوتا سو اس کا کان کاٹ کر چھوڑ دتے، اب اس کا دودھ اور دیگر منافع عورتوں پر حرام ہوتے صرف مردوں کے لیے خاص ہوتے اور جب یہ مرجاتی تو عورتوں اور مردوں کے لیے حلال ہوجاتی اور کہا گیا ہے کہ اونٹنی جب لگاتار بارہ سال مادہ بچے دیتی تو اس کو چھوڑ دیا جاتا اس کی پیٹھ پر سوار نہ کی جاتی اور اس کی اون نہ کاٹی جاتی او اس کا دودھ صرف مہمان پی سکتا تھا۔ اس کے بعد کوئی بچہ پیدا ہوتا تو اس کے کان کاٹ کر چھوڑ دیا جاتا اور اس کو بھی ماں کی طرح اونٹوں میں چھوڑ دیا جاتا اور اس پر نہ کوئی سواری کرسکتا اور نہ اون کاٹ سکتا اور دودھ صرف مہمان پی سکتا تھا تو یہ بحیرہ بنت السائبۃ ہے۔ اور ابو عبیدہ (رح) فرماتے ہیں کہ سائبہ وہ اونٹ جس کو چھوڑ دیا جائے اس کی صورت یہ تھی کہ اہل جاہلیت میں جب کوئی شخص مریض ہوجاتا یا اس کا کوئی قریبی رشتہ دار گم ہوجاتا تو وہ منت مانتا کہ اگر اللہ مجھے شفا دے یا میرے مریض کو شفا ہوجائے یا میرا غائب لوٹ آئے تو میرا یہ اونٹ آزاد ہے۔ پھر اس کو چھوڑ دیتا اور اس کو چرا گاہ، پانی سے نہ روکا جاتا اور اس پر کوئی سواری بھی نہ کرتا تو یہ بحیرہ کے مرتبہ میں ہے اور علقمہ (رح) فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ غلام ہو جس کو چھوڑا جاتا تھا کہ اس پر نہ ولاء ہے اور نہ دیت اور نہ میراث۔ اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ولاء اس شخص کو ملے گی جس نے غلام آزاد کیا ( رواہ البخاری) اور سائبہ فاصلۃ کے وزن پر ” مفعولۃ “ کے معنی میں ہے یعنی وہ جانور جس کو چھوڑا گیا ہو۔ جیسے اللہ تعالیٰ کے فرمان ” ماء دافق “ میں دافق مدفوق کے معنی میں ہے اور بہرحال وصیلۃ تو جو بکری سات بچے جن لیتی تو وہ دیکھتے کہ ساتواں بچہ نر ہے یا مادہ، اگر نر ہوتا تو اس کو ذبح کرکے مردو عورت سب کھاتے اور اگر مادہ ہوتی تو اس کو بکریوں میں چھوڑ دیتے اور اگر ساتواں بچہ نر اور مادہ دونوں پیدا ہوتے تو اس نر کو اس مادہ کی وجہ سے زندہ چھوڑ دیتے اور کہتے کہ اس مادہ نے اپنے بھائی کو اپنے ساتھ ملالیا ہے اور ذبح نہ کرتے اور اس مادہ کا دودھ عورتوں پر حرام تھا۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی مرجاتا تو اس کو مردو عورت سب کھاتے اور حام وہ نر جانور جس کے بچے کے بچے سواریکے قابل ہوجائیں اور کہا گیا ہے کہ جس کی پیٹھ سے دس بچے پیدا ہوچکے ہوں اس پ نہ سواری کی جاتی ہے اور نہ بوجھ لادا جاتا اور نہ گھاس اور پانی سے روکا جاتا۔ پھر جب یہ مرجاتا تو مرد اور عورتیں اس کو کھالیتے۔ سعید بن مسیب (رح) سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ بحیرۃ وہ جانور جس کا دودھ بتوں کے لیے روکا گیا ہو لوگ اس کا دودھ نہ نکالتے ہوں اور سائبۃ وہ جانور جس کو اپنے بتوں کے لیے لوگ چھوڑ دیں کہ اس پر کوئی بوجھ نہ ڈالیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ جہنم میں اپنی انتڑیوں کو گھسیٹ رہا ہے۔ یہ پہلا شخص ہے جس نے جانور کو بتوں کے لیے چھوڑا۔ (رواہ البخاری) عمرو بن لحی کا دوزخ میں اپنی انتڑیوں کا کھینچنا حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اکتم بن جون خزاعی کو ارشاد فرمایا کہ اے اکتم ! میں نے عمرو بن لحی بن قمعۃ بن خندق کو دیکھا کہ اپنی انتڑیاں جہنم میں گھسیٹ رہا تھا میں نے تجھ سے زیادہ کسی کو اس کے مشابہ نہیں دیکھا اور اس سے زیادہ کسی کو تیرے مشابہ نہیں دیکھا۔ (رواہ البخاری) اور یہ پہلا شخص ہے جس نے اسماعیل (علیہ السلام) کے دین کو تبدیل کیا اور بت گاڑھے اور بحیرۃ اور سائبۃ وصیلہ اور حام جانوروں کا معاملہ کیا۔ میں نے اس کو جہنم میں دیکھا کہ وہ جہنمیوں کو اپنی انتڑیوں کی بدبو سے تکلیف دے رہا تھا تو حضرت اکتم ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا اس کی مشابہت مجھے نقصان دے گی ؟ تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں بیشک تو مومن ہے اور وہ کافر تھا ( ولکن الذین کفروا یفترون علی اللہ الکذب اور لیکن کافر باندھتے ہیں اللہ پر بہتان اور ان میں سے اکثر کو عقل نہیں) بعنی یہ کہنے میں بہتان باندھتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں ان کاموں کا حکم دیا ہے۔ ) واکثرھم لایعقلون
Top