Tafseer-e-Baghwi - Al-Maaida : 111
وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَى الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَ بِرَسُوْلِیْ١ۚ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ اشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَوْحَيْتُ : میں نے دل میں ڈال دیا اِلَى : طرف الْحَوَارِيّٖنَ : حواری (جمع) اَنْ : کہ اٰمِنُوْا بِيْ : ایمان لاؤ مجھ پر وَبِرَسُوْلِيْ : اور میرے رسول پر قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَاشْهَدْ : اور آپ گواہ رہیں بِاَنَّنَا : کہ بیشک ہم مُسْلِمُوْنَ : فرمانبردار
اور جب میں نے حواریوں کی طرف حکم بھیجا کہ مجھ پر اور میرے پیغمبر پر ایمان لاؤ وہ کہنے لگے کہ (پروردگار) ہم ایمان لائے تو شاہد رہیو کہ ہم فرمانبردار ہیں
آیت نمبر 112, 111 تفسیر : (واذا او حیت الی الحوارین) یعنی ان کو الہام کیا اور ان کے دل میں ڈال دیا اور ابوعبیدہ (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے ان کا حکم دیا اور ” الی صلۃ “ ہے اور حواری عیسیٰ (علیہ السلام) کے خاص ساتھی کو کہتے ہیں۔ (ان امنوا بی وبرسولی) رسول سے مراد عیسیٰ (علیہ السلام) پر (قالوا) جب میں نے ان کو توفیق دی (امنا واشھد بافنا مسلمون) ۔ (اذ قال الحواریون یعیسیٰ ابن مریم ھل یستطیع) کسائی (رح) نے ” ھل تستطیع “ تاء کے ساتھ پڑھا ہے اور ” ربک “ کو باء کے زبر کے ساتھ اور یہی حضرت علی ؓ ، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ، ابن عباس ؓ ، مجاہد (رح) کی قرأت ہے یعنی کیا آپ کو یہ طاقت ہے کہ اپنے رب سے دعا اور سوال کریں اور دیگر حضرات نے ” یستطیع “ کو یاء کے ساتھ اور ” ربک “ کو باء کے پیش کے ساتھ پڑا ہے اور یہ لوگ اللہ کی قدرت میں شک کرنے والے نہیں تھے بلکہ معنی یہ ہے کیا آپ کے رب ایسا دستر خوان اتاریں گے یا نہیں ؟ جیسے آدمی اپنے دوست کو کہتا ہے کہ کیا تو یہ طاقت رکھتا ہے کہ میرے ساتھ کھڑا ہو ؟ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کام کی طاقت رکھتا ہے۔ صرف یہ پوچھنا چاہتا ہے کہ یہ کام تو کرے گا یا نہیں ؟ اور بعض نے کہا کہ ” یستطیع “ مطیع کے معنی میں ہے اور بعض نے کہا کہ اطاع اور استطاع کے ایک ہی معنی ہیں ۔ جیسے اجاب اور استجاب کے۔ نزول مائدہ کے متعلق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا سوال اب آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ کا رب آپ (علیہ السلام) کے سوال کو قبول کرکے آپ کی اطاعت کرے گا ؟ اور آثار میں بھی ہے کہ جو شخص اللہ کی اطاعت کرے اللہ اس کی اطاعت کرتا ہے اور بعض مفسرین نے آیت کا ظاہری معنی ہی مراد لیا ہے کہ اس قوم سے غلطی سے یہ بات ہوگئی تھی ابھی اللہ تعالیٰ کی معرفت مستحکم نہ ہوئی تھی تو بشریت سے یہ غلطی ہوگئی تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی اس غلطی کے وقت اس قول کو بہت بڑا سمجھتے ہوئے فرمایا یعنی اس کی قدرت میں شک نہ کرو ( ان ینزل علینا مائدہ من السماء ) مائدہ وہ دسترخوان جس پر کھانا ہو۔ یہ فاعلۃ کے وزن پر ہے۔ ؟؟ مادہ بعیدۃ “ سے یہ بولا جاتا ہے جب کوئی کسی کو کھانا دے اور اس کو کھلا دے اور مائدہ کھانے والوں کو کھانے کی دعوت کو کہتے ہیں اور مجازاً کھانے کو بھی مائدۃ کہہ دیتے ہیں کیونکہ وہ بھی دستر خوان پر کھایا جاتا ہے۔ اہل کوفہ کہتے ہیں اس کا نام مائدہ رکھا گیا کیونکہ یہ کھانے والوں پر مائل ہوتا ہے اور اہل بصرہ کہتے ہیں فاعلۃ کا وزن تو مفعولۃ کے معنی میں ہے۔ یعنی اس کو کھانے والوں کی طرف مائل کیا گیا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان (عیشۃ راضیۃ) یعنی پسندیدہ ہے۔ (قال) عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو جواب میں ( اتقوا اللہ ان کنتم مومنین) تو اس کی قدرت میں شک نہ کرو اور کہا گیا ہے کہ تم اللہ سے ڈرو اس چیز کے مانگنے سے تو تم سے پہلے کی امتوں نے نہیں مانگی تو ان کو ایمان لانے کے بعد نشانیوں کا مطالبہ کرنے سے منع کردیا۔
Top