Tafseer-e-Baghwi - Al-Maaida : 113
قَالُوْا نُرِیْدُ اَنْ نَّاْكُلَ مِنْهَا وَ تَطْمَئِنَّ قُلُوْبُنَا وَ نَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَ نَكُوْنَ عَلَیْهَا مِنَ الشّٰهِدِیْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا نُرِيْدُ : ہم چاہتے ہیں اَنْ : کہ نَّاْكُلَ : ہم کھائیں مِنْهَا : اس سے وَتَطْمَئِنَّ : اور مطمئن ہوں قُلُوْبُنَا : ہمارے دل وَنَعْلَمَ : اور ہم جان لیں اَنْ : کہ قَدْ صَدَقْتَنَا : تم نے ہم سے سچ کہا وَنَكُوْنَ : اور ہم رہیں عَلَيْهَا : اس پر مِنَ : سے الشّٰهِدِيْنَ : گواہ (جمع)
وہ بولے کہ ہماری خواہش ہے کہ تم اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل تسلّی پائیں۔ اور ہم جان لیں کہ تم نے ہم سے (سچ کہا ہے اور ہم اس (خوان کے نزول) پر گواہ رہیں۔
آیت نمبر 115, 114, 113 تفسیر : (قالوا نرید) یعنی ہم نے یہ سوال اس وجہ سے کیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ (ان نکل منھا) بطور تبرک نہ کہ ضرورت کی وجہ سے تاکہ اللہ کی قدرت کا یقین ہوجائے ( وتطمین (پر سکون ہوجائیں) قلوبنا ونعلم ان قد صدقتنا) کہ آپ اللہ کے رسول ہیں یعنی ہمارا ایمان و یقین بڑھ جائے اور بعض نے کہا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو حکم دیا کہ تیس دن روزے رکھیں جب وہ ان کے بعد افطار کریں گے تو اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگیں گے ان کو ملے گا تو انہوں نے تیس دن بعد مائدہ کا سوال کیا اور کہنے لگے کہ ہم جان لیں کہ آپ اپنے اس قول میں سچے تھے کہ تس روزوں کے بعد جو کچھ ہم اللہ تعالیٰ سے مانگیں گے وہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیں گے ( وتکون علیھا من الشھدین) اللہ کی وحدانیت اور قدرت پر اور آپ کی رسالت اور نبوت پر اور کہا گیا ہے کہ اور رہیں ہم گواہ آپ کے بنی اسرائیل کے سامنے جب ہم ان کی طرف لوٹیں گے۔ (قال عیسیٰ ابن مریم) اس وقت (اللھم ربنا انزل علینا مائدہ من السمائ) بعض حضرات نے کہا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے غسل کیا اور ٹاٹ کا لباس پہنا اور دو رکعت نماز پڑھی اور اپنا سرجھکا لیا اور آنکھیں پست کرلیں اور روتے ہوئے یہ دعا کی (تکون لنا عیدا لاولنا واخرنا) یعنی ہم پ لوٹے اللہ کی طرف سے حجت اور واضح نشانی بن کر اور عید خوشی کے دن کو کہتے ہیں۔ اس دن کو عید اس وجہ سے کہتے ہیں کہ رنج سے خوشی کی طرف لوٹتا ہے اور یوم الفطر اور یوم الاضحی کو عید اس وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ ہر سال میں لوٹ کر آتے ہیں۔ سدی (رح) فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ جس دن میں یہ اترے گا ہم اس کو عید بنالیں گے اور ہم اور ہمارے بعد والے لوگ اس دن کی تعظیم کریں گے اور سفیان (رح) فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ ہم اس دن میں نماز پڑھیں گے۔ ” لاولنا “ سے مراد اس زمانے کے لوگ اور ” آخرنا “ سے وہ لوگ مراد ہیں جو ان کے بعد آئیں گے۔ (وایتہ منک) جو آپ کیلئے دلالت اور حجت ہو ( وارفنا وانت خیرً الرزقین) (قال اللہ) عیسیٰ (علیہ السلام) کو جواب دیتے ہوئے (انی منزلھا علیکم) الہ مدینہ، ابن عامر اور عاصم نے ” منزلھا “ کو شد کے ساتھ پڑھا ہے کیونکہ یہ کئی مرتبہ اتارا گیا تھا اور باب قلعیل تکرار پر دلالت کرتا ہے اور باقی حضرات نے تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ (فمن یکفر بعد منکم) خوان کے اترنے کے بعد ( فانی اعلہۃ عذاباً لااعلمۃ احدًا من العلمین) اس زمانہ کے لوگوں کو تو انہوں نے خوان کا انکار اور ناشکری کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان کی شکلیں بگاڑ کر بندر اور خنزیر بنادیا۔ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن سخت ترین عذاب منافقین اور اصحاب مائدہ میں سے کافروں اور آل فرعون کو ہوگا۔ نزول مائدہ کا واقعہ علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ مائدہ نازل ہوا تھا یا نہیں ؟ مجاہد اور حسن رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ یہ نازل نہیں ہوا تھا کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے خوان کے انکار پر وعید بیان کی تو لوگوں کو خوف ہوا کہ کہیں ہم میں سے بعض لوگ کافر نہ ہوجائیں اس لیے وہ لوگ باز آگئے اور کہنے لگے کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے تو وہ نہیں اتارا گیا اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم سوال کرو گے تو یہ اور صحیح قول جس کی طرف اکثر مفسرین گئے ہیں یہ ہے کہ مائدہ اتارا گیا تھا کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اور اللہ تعالیٰ اپنی خبر کے خلاف نہیں کرتے اور اس بارے میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور تابعین سے متواتر خبریں موجودہیں۔ پھر اس مائدہ کی کیفیت میں اختلاف ہوا ہے تو خلاس بن عمرو نے عمار بن یاسر ؓ سے روایت کیا ہے ک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس میں گوشت روٹی اترتے تھے اور ان کو کہا گیا تھا کہ جب تک تم خیانت نہ کرو اور اس میں سے کچھ نہ چھپائو تو تم پر اترتا رہے گا لیکن ایک دن بھی نہ گزرا کہ انہوں نے خیانت کی اور چھپالیا تو ان کی شکلیں بگڑ کر بندر اور خنزیر بنادیا گیا اور ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو کہا تھا کہ تیس دن روزے رکھو پھر اللہ تعالیٰ سے جو چاہو مانگو تمہیں دے گا تو انہوں نے روزے رکھے اور جب فارغ ہوئے تو کہنے لگے اے عیسیٰ (علیہ السلام) ! اگر ہم کسی کے لیے کام کرتے تو وہ میں کھانا نہ کھلاتا ؟ اور اللہ تعالیٰ سے مائدہ کا سوال کیا تر فرشتے مائدہ لائے اس پر سات روٹیاں اور سات مچھلیاں تھیں وہ ان کے سامنے رکھ دیا گیا تو اس سے تمام لوگوں نے سیر ہوکر کھایا۔ کعب احبار فرماتے ہیں کہ مائدہ منکوس شکل میں لایا گیا۔ اس کو فرشتے آسمان و زمین کے درمیان اڑا کرلے آئے اس پر گوشت کے علاوہ تمام کھانے تھے اور سعید بن جبیر ؓ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ مائدہ پر ہر چیز اتاری گئی سوائے روٹی اور گوشت کے اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ اس پر جنت کے پھل تھے اور عطیہ عوفی (رح) فرماتے ہیں کہ آسمان سے مچھلی اتاری گئی جس میں ہر چیز کا ذائقہ تھا اور کلبی (رح) فرماتے ہیں کہ اس پر روٹی، حاول اور سبزی تھی اور ہب بن منبہ (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنو کی روٹیاں اور مچھلیاں اتاریں اور یہ لوگ باری باری کھاتے رہے یہاں تک کہ سب کا پیٹ بھر گیا اور کھانا بچ گیا اور کلبی اور مقاتل رحمہما اللہ سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ روٹیاں اور مچھلی اتاری تو انہوں نے پیٹ بھر کر کھایا اور وہ لوگ ایک ہزار سے زائد تھے جب وہ اپنی بستیوں کی طرف لوٹے اور یہ باتیں بتلائیں تو جو لوگوہاں نہیں گئے تھے وہ ہنسنے لگے اور کہنے لگے تمہارا ناس ہو تمہاری آنکھوں پر جادو کیا گیا ہوگا۔ پس جن لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا ارادہ کیا تھا ان کو اپنی بصیرت پر قائم رکھا اور جن کی آزمائش کا ارادہ کیا وہ اپنے کفر کی طرف لوٹ گئے اور شکلیں بگاڑ کر خنزیر بنا دیئے گئے۔ ان میں کوئی بچہ اور عورت نہ تھی۔ تین دن اسی حالت میں رہے پھر ہلاک ہوگئے۔ آگے نہ ان کی نسل چلی اور نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ اسی طرح ہر مسخ شدہ قوم کی آگے نسل چلی اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ مائدہ صبح ، شام وہ جہاں ہوتے وہیں اترتا جیسے بنی اسرائیل کے لیے من وسلویٰ اترتا تھا۔ عطاء بن ابی رباح (رح) نے سلمان فارسی ؓ سے نقل کیا ہے کہ جب حواریوں نے مائدہ کا سوال کیا تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے اون کا لباس پہنا اور رونے لگے اور دعا کی تو سرخ چمڑے کا دستر خوان آسمان سے اترا جس کے اوپر اور نیچے بادل تھا، لوگ اس کی طرف دیکھ رہے تھے اور وہ آہستہ سے نیچے اتر رہا تھا۔ یہاں تک کہ ان کے سامنے بچھ گیا تو عیسیٰ (علیہ السلام) رو پڑے اور فرمانے لگے اے اللہ ! مجھے شکر گزار بندوں میں بنا۔ اے اللہ ! اس کو رحمت بنا سزا نہ بنا اور یہود وہ کھانے دیکھ رہے تھے انہوں نے نہ ان جیسے کھانے پہلے دیکھے نہ ایسی عمہ خوشبو پہلے کبھی سونگھی تھی تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تم میں سے اچھے اعمال والا کھڑا ہو اور اس کو کھولے اور اللہ کا نام لے تو حواریوں کے سردار شمعون صفار کہنے لگے کہ اس کام کے ہم سے زیادہ آپ لائق ہیں تو عیسیٰ (علیہ السلام) کھڑے ہوئے ، وضو کیا اور بہت لمبی نماز پڑھی اور بہت زیادہ روئے اور پھر کھانے پر سے رومال ہٹا لیا اور فرمایا اللہ کے نام کے ساتھ جو بہتر رزق دینے والا ہے۔ جب کھولا تو وہ بھنی ہوئی مچھلی تھی نہ اس کے سفنے تھے اور نہ کانٹے اس کے سر کی طرف نمک اور دم کی طرف سر کہ تھا۔ اس کے ارد گرد سبزیوں کی اقسام تھیں گندنے کے علاوہ اور پانچ روٹیاں تھیں یک پر زیتون دوسری پر شہد، تیسری پر گھی اور چوتھی پر پنیر اور پانچویں پر خشک گوشت کے ٹکڑے تو شمعون نے سوال کیا اے روح اللہ ! (علیہ السلام) یہ دنیا کے کھانوں میں سے ہے یا آخرت کے کھانوں میں سے ؟ تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جو کچھ تم دیکھ رہے ہو نہ دنیا کے کھانوں میں سے ہے نہ آخرت کے کھانوں میں سے لیکن یہ ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی غالب قدرت سے وجود دیا ہے۔ کھائو اس سے جو اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تم کو اپنے فضل سے زیادہ دے۔ تو وہ کہنے لگے اے روح اللہ ! آپ (علیہ السلام) اس کھانے کی ابتداء کریں تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ کی پناہ کہ میں اس کو کھائوں جس نے سوال کیا ہے وہ خود کھائے تو وہ لوگ ڈر گئے تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے فاقہ کش لوگوں اور مریضوں اور برص اور جزام والے لوگوں اور اپاہجوں کو بلایا اور کہا اللہ کے رزق سے کھائو تمہارے لیے نعمت ہے اور تمہارے علاوہ کے لیے آزمائش ہے تو ان لوگوں نے کھایا اور تیرہ سو مردو عورت جن میں فقیر، مریض وغیرہ بھی تھے سیر ہوگئے اور مچھلی ویسی رہی جیسے نازل ہوئی تھی۔ پھر مائدہ آسمان کی طرف اڑا وہ لوگ اس کو دیکھتے رہے یہاں تک کہ وہ پردہ میں چھپ گیا۔ اس سے جس مریض اور اپاہج نے کھایا تھا وہ تندرست ہوگیا اور جس فقیر نے کھایا غنی ہوگیا اور جنہوں نے نہیں کھایا تھا وہ نادم ہوئے۔ یہ خوان چالیس دن چاشت کے وقت اترتا رہا۔ جب یہ اترتا تو غنی، فقیر، بچے ، بڑے مردو عورت سب جمع ہوجاتے اور اس سے کھاتے لیکن جب سایہ لوٹتا تو یہ اڑ جاتا ۔ یہ دستر خوان ایک دن چھوڑ کر اتارتا جس طرح قوم ثمود کی اونٹنی ایک دن چھوڑ کر دودھ دیتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو وحی کی کہ میرے دستر خوان کو فقراء کے ساتھ خاص کردیں، اغنیاء کو نہ کھانے دیں۔ یہ بات مال داروں کو ناگوار گزری اور خود بھی شک میں مبتلا ہوئے اور لوگوں کو شک میں ڈالنے لگے اور کہنے لگے کہ کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ یہ دستر خوان حق ہے جو آسمان سے اترتا ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو وحی کی کہ میں نے یہ شرط کی تھی کہ جو شخص دستر خوان کے اترنے کے بعد انکار کرے گا میں اس کو ایسا عذاب دوں گا جیسا جہاں والوں میں سے کسی کو نہیں دوں گا تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا (اگر آپ ان کو عذا بدو تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ معاف کردیں تو بیشک آپ غالب حکمت والے ہیں) تو ان میں سے تین سو تینتیس کی شکل بگاڑ دی گئی وہ رات کو اپنی بیویوں کے ساتھ سوئے تھے صبح کو سور بن کر گلیوں اور گندگیوں میں دوڑتے پھرتے تھے اور گندگی کھاتے پھرتے تھے۔ جب لوگوں نے یہ معاملہ دیکھا تو گھبرا کر عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس گئے اور رونے لگے اور ان خنزیروں نے جب عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا تو یہ بھی رونے لگے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے اردگرد چکر لگانے لگے عیسیٰ (علیہ السلام) ان میں سے ہر ایک کا نام لے کر پکارتے تھے تو وہ اپنے سر سے اشارہ کرتے تھے اور روتے تھے لیکن بات کرنے پر قادر تھے تین دن بعد ہلاک ہوگئے۔
Top