Tafseer-e-Baghwi - Al-Maaida : 32
مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ١ؔۛۚ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا١ؕ وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا١ؕ وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِ١٘ ثُمَّ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ
مِنْ : سے اَجْلِ : وجہ ذٰلِكَ : اس كَتَبْنَا : ہم نے لکھدیا عَلٰي : پر بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اَنَّهٗ : کہ جو۔ جس مَنْ قَتَلَ : کوئی قتل کرے نَفْسًۢا : کوئی جان بِغَيْرِ نَفْسٍ : کسی جان کے بغیر اَوْ فَسَادٍ : یا فساد کرنا فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں فَكَاَنَّمَا : تو گویا قَتَلَ : اس نے قتل کیا النَّاسَ : لوگ جَمِيْعًا : تمام وَمَنْ : اور جو۔ جس اَحْيَاهَا : اس کو زندہ رکھا فَكَاَنَّمَآ : تو گویا اَحْيَا : اس نے زندہ رکھا النَّاسَ : لوگ جَمِيْعًا : تمام وَ : اور لَقَدْ جَآءَتْهُمْ : ان کے پاس آچکے رُسُلُنَا : ہمارے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : روشن دلائل کے ساتھ ثُمَّ : پھر اِنَّ : بیشک كَثِيْرًا : اکثر مِّنْهُمْ : ان میں سے بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں لَمُسْرِفُوْنَ : حد سے بڑھنے والے
اس (قتل) کی وجہ سے تم نے نبی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا کہ جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی پیدا کرنے کی سزا دی جائے اس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا۔ اور لوگوں کے پاس ہمارے پیغمبر روشن دلیلیں لاچکے ہیں پھر اس کے بعد بھی ان میں بہت سے لوگ ملک میں حّد اعتدال سے نکل جاتے ہیں۔
آیت نمبر 32 تفسیر : (من اجل ذلک) (اسی سبب سے ) ابو جعفر (رح) نے ” من اجل ڈالک “ کو نون کے کسرہ کے ساتھ ملا کر پڑھا ہے اور اکثر قراء نے نون کے جزم اور ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ جدا کرکے۔ یعنی اس قاتل کی سزا اور چٹی کی وجہ سے (کتبنا علیٰ بنی اسرآء یل انہ من قتل نفساً بغیر نفس) ( لکھا ہم نے بنی اسرائیل پر کہ جو کوئی قتل کرے ایک جان کو بلا عوض جان کے) قتل کیا اس کو تو اس سے قصاص لیا جائے گا۔ ( اوفساد فی الارض) (یا ملک میں فساد کرنے کے بغیر) یعنی بغیر قصاص لینے اور کفر ، زنا ، ڈاکہ وغیرہ کے ذریعے ملک میں فساد کرنے کے بغیر قتل کیا۔ (فکانما قتل الناس جمیعاً ) ( تو گویا قتل کر ڈالا اس نے سب لوگوں کو) اس کی تفسیر میں اختلاف ہے۔ نبی یا عادل بادشاہ کو قتل کرنا پوری امت کو قتل کرنے کے برابر ہے عکرمہ کی روایت میں ابن عباس ؓ کا قول یہ ہے کہ جس نے نبی یا عادل بادشاہ کو قتل کیا تو اس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جس نے نبی یا امام عادل کی قوت بڑھائی اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کیا۔ مجاہد (رح) اللہ فرماتے ہیں جس نے ناحق کسی کو قتل کیا تو ایسی آگ بھڑکتی ہے جیسے اگر تمام لوگوں کو قتل کرتا تو بھڑکتی ۔ قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اجر کو بڑا کیا اور گناہ کو بہت زیادہ کیا۔ مطلب یہ ہے کہ جس نے کسی مسلمان کے ناحق قتل کو حلال سمجھا گویا کہ اس کو تمام لوگوں کے قتل کرنے کا گناہ ہوا اس لیے کہ ایک کو قتل کردیا تو باقی بھی اس سے محفوظ نہ ہوئے (ومن احیاھا) (اور جس نے زندہ رکھا ایک جان کو) اور اس کے قتل سے پرہیز کیا۔ ( فکانما احیا الناس جمیعا) ( تو گویا زندہ کردیا سب لوگوں کو) کیونکہ سب لوگ اس سے محفوظ ہوگئے تو ثواب ملے گا۔ حسن (رح) فرماتے ہیں کہ سب لوگوں کو قتل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے ایسا قصاص لینا واجب ہے جیسا اگر سب لوگوں کو قتل کرتا تو لیا جاتا اور ” ومن احیاھا “ کا مطلب یہ ہے کہ جس پر قاص واجب تھا اس کو معاف کردیا اور قتل نہیں کیا تو گویا اس نے سب لوگوں کو زندہ کردیا۔ سلیمان بن علی فرماتے ہیں کہ میں نے حسن کو کہا اے ابو سعید ! کیا یہ حکم بنی اسرائیل کی طرح ہمیں بھی ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں بنی اسرائیل کے خون ہمارے خون سے اللہ کے ہاں زیادہ مرتبہ والے نہیں تھے ( ولقد جاء تھم رسلنا بالبینت ثم ان کثیرا منھم بعد ذلک فی الارض لمسرفون اور لاچکے ہیں ان کے پاس ہمارے رسول کھلے ہوئے حکم پھر بہت سے لوگ ان میں سے اس پر بھی دست درازی کرتے ہیں۔ )
Top