Tafseer-e-Baghwi - Al-Maaida : 35
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے اتَّقُوا : ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَابْتَغُوْٓا : اور تلاش کرو اِلَيْهِ : اس کی طرف الْوَسِيْلَةَ : قرب وَجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو فِيْ : میں سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! خدا سے ڈرتے رہو۔ اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرتے رہو اور اس کے راستہ میں جہاد کرو تاکہ رستگاری پاؤ۔
آیت نمبر 38, 37, 36, 35 تفسیر : (یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وابتغوا اے ایمان والو ! ڈرتے رہو اللہ سے اور ڈھونڈو اور طل کرو ( الیہ الوسیلۃ) اس تک وسیلہ) یعنی قرب کا ذریعہ یہ فعیلتہ کے وزن پر ہے تو سل الی فلان سے لیا گیا ہے یعنی فلاں کی طرف قریب ہوگیا اس کی جمع وسائل آتی ہے ( وجاھدوا فی سبیلہ لعلکم تفلحون اور جہاد کرو اس کے راستہ میں تاکہ تمہارا بھلا ہو) (ان الذین کفروا لوان لھم ما فی الارض جمیعاً و مثلہ معہ لیفتدوا بہ من عذاب یوم القیمۃ ماتقبل منھم جو لوگ کافر ہیں اگر ان کے پاس جو کچھ زمین میں ہے سارا ہو اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ہوتا کہ بدلہ میں دیں اپنے قیامت کے عذاب سے تو ان سے قبول نہ ہوگا) اس آیت میں خبر دی ہے کہ کافر اگر تمام دنیا اور اس کے مثل کا مالک ہو اور عذاب سے چھٹکارے کے لیے سب کچھ دے تو اس سے یہ فدیہ قبول نہ ہوگا ( ولھم عذاب الیم اور ان کے واسطے درد ناک عذاب ہے) (یریدون ان یخرجوا من النار وما ھم بخر جین منھا چاہیں گے کہ نکل جاویں آگ سے اور وہ اس سے نکلنے والے نہیں) اس کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ وہ ارادہ کرکے اس سے نکلنے کا مطالبہ کریں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (کلما ارادو ان یخرجوامنھا) جب بھی وہ اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے اور دوسری یہ کہ صرف دل میں تمنا کریں گے جیسا اللہ تعالیٰ نے ان کی اس خواہش کی خبر دی ( ربنا اخرجنا منھا) اے ہمارے رب ! ہمیں اس سے نکال دے (ولھم عذاب مقیم اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے) (والشارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما) اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت، کاٹ ڈالو ان کے ہاتھ) اس سے مراد ان کے دائیں ہاتھ ہیں اور اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے مصحف میں لکھا ہوا ہے اور مکمل حکم یہ ہے کہ جو شخص مال کی ایک خاص مقدار ایسی حفاظت کی جگہ سے چوری کرے جس میں کسی قسم کا شبہ نہ ہو تو اس کے پہونچے سے اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اور اہل علم کے نزدیک نصاب سے کم مال کی چوری پر قطع ید نہیں ہے۔ ابن زبیر سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ تھوڑی سی چیز کی چوری پر ہاتھ کا ٹدیتے تھے اور اکثر علماء اس کے خلاف ہیں۔ کتنی مقدار میں قطع ید ہوگا ؟ مال کی کتنی مقدار پر ہاتھ کاٹا جائے گا اس میں اختلاف ہے۔ اکثر اہل علیم کے نزدیک ایک دینار کے چوتھے حصہ سے کم میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اگر دینار کا چوتھا حصہ یا سامان چرایا جس کی قیمت ربیع دینار کو پہنچ جاتی ہے تو ہاتھ کاٹا جائے گا اور یہی حضرت ابوبکر، حضرت عمرو عثمان و علی ؓ کا قول ہے اور عمر بن عبدالعزیز، امام اوزاعی، امام شافعی رحمہما اللہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ اس حدیث کی وجہ سے جو عروہ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قطع ید دینار کی چوتھائی یا زائد میں ہوگا اور ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک ڈھال چوری کرنے والے کا ہاتھ اس ڈھال کی قیمت تین درہم تھی اور حضرت عثمان ؓ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے لیموں چوری کرنے والے کا ہاتھ کٹوایا۔ اس کی قیمت لگائی گئی تو تین درہم تھی اور امام مالک (رح) کا یہی قول ہے کہ تین درہم یا اس کی مالیت کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اور ایک قوم اس طرف گئی ہے کہ ایک دینار یا دس درہم یا اس کی مالیت سے کم میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا اور یہی بات حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے اور اسی طرف سفیان ثوری اور اصحاب رائے گئے ہیں اور ایک جماعت نے کہا پانچ درہم پر کاٹا جائے گا اور یہ بات حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے اسی کے ابن ابی لیلیٰ قائل ہیں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ چور پر لعنت کرے کہ وہ انڈہ اور رسی چراتا ہے اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔ امام اعمش (رح) فرماتے ہیں علماء کے نزدیک اس حدیث میں لوہے کا انڈہ اور لوہے کی رسی مراد ہے اور یہ تین درہم کے برابر ہوئی تھی۔ اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جن کے نزدیک تھوڑی مالیت کی چیز پر بھی ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے اور اکثر علماء کے نزدیک حدیث کا وہ مطلب ہے جو امام اعمش (رح) نے بیان کیا ہے کیونکہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص غیر محفوظ جگہ سے چوری کرے تو ہاتھ نہ کاٹا جائے گا جیسے کسی باغ میں چوکیدار نہ ہو اور پھل چرائے یا جنگل بیابان میں چرواہا نہ ہو تو ریوڑ جانور چرالے یا ایسے گھر سے مال چوری کرے جو آبادی سے ہٹ کر ہو اور رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا لٹکے ہوئے پھل میں اور رسی سے بندھے ہوئے ریوڑ کی بکری چرانے میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔ حضرت جابر ؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ خیانت کرنے والے ، مال غنیمت کو لوٹنے والے اور اچک کر مال لینے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اور اگر ایسا مال چور کیا جس میں چور کا شبہ تھا جیسے غلام اپنے سردار کا مال چرالے یا بیٹا اپنے والد کا یا والد اپنی اولاد کا مال چرالے یا دو پارٹنرز میں سے ایک مشترک مال میں سے کچھ چرالے تو اس پر ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔ چور بار بار چوری کرے تو اس کا کیا حکم ہے جب چور پہلی دفعہ چوری کرے تو اس کا دایاں ہاتھ کلائی سے کاٹا جائے گا۔ پھر جب دوبارہ چوری کرے تو پائوں کے جوڑ سے بایاں پائوں کاٹا جائے گا اور تیسری دفعہ چوری کرے تو اس میں اختلاف ہے۔ اکثر علماء کے نزدیک تیسری دفعہ بایاں ہاتھ اور چوتھی دفعہ دایاں پائوں کاٹ دیاجائے گا۔ پھر اگر اس کے بعد چوری کرے تو مناسب سزا دے کر قید کردیا جائے گا۔ جب تک توبہ نہ کرے اور یہی بات حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے مروی ہے اور یہی قتادہ، امام مالک و شافعی رحمہما اللہ کا قول ہے ان کی دلیل حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دو پھر چوری کرے تو پائوں کا ٹدو، پھر اگر چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دو ، پھر اگر چوری کرے تو پائوں کاٹ دو (الطبرانی) اور ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ اگر تیسری دفعہ چوری کرے اور اس سے پہلے دایاں ہاتھ اور بایاں پائوں کاٹ دیگ گیا ہو تو اب کوئی عضو نہ کاٹا جائے گا بلکہ اس کو قید کیا جائے گا اور یہی بات حضرت علی ؓ سے روایت کی گئی ہے اور انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ مجھ یاس بات سے حیاء آتی ہے کہ میں استنجاء کے لیے اس کا کوئی ہاتھ نہ چھوڑوں اور چلنے کے لیے کوئی پائوں نہ چھوڑوں اور یہی امام شعبی اور امام نخعی رحمہما اللہ کا قول ہے اور اسی بات کے قائل امام اوزاعی اور احمد اور اصحاب رائے ہیں۔ ( جزاء بما کسباان کی کمائی کی سزا میں) یہ منصوب ہے حال ہونے کی وجہ سے اور نکالا بھی اسی طرح حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے (تنبیہ ہے) یعنی سزا ہے ( من اللہ ط واللہ عزیز حکم اللہ کی طرف سے اور اللہ غالب ہے حکمت والا)
Top