Tafseer-e-Baghwi - Al-Maaida : 51
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ١ؔۘ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَتَّخِذُوا : نہ بناؤ الْيَھُوْدَ : یہود وَالنَّصٰرٰٓى : اور نصاریٰ اَوْلِيَآءَ : دوست بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض اَوْلِيَآءُ : دوست بَعْضٍ : بعض (دوسرے) وَمَنْ : اور جو يَّتَوَلَّهُمْ : ان سے دوستی رکھے گا مِّنْكُمْ : تم میں سے فَاِنَّهٗ : تو بیشک وہ مِنْهُمْ : ان سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم
اے ایمان والو ! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور جو شخص تم میں سے انکو دوست بنائیگا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا۔ بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
آیت نمبر 52, 51 تفسیر : (یایھا الذین امنوا لاتتخذوا الیھود والنصریٰ اولیاء اے ایمان والو ! مت بنائو یہود اور نصاریٰ کو دوست) اس آیت کے شان نزول میں اختلاف ہے۔ آیت لاتتخذو الیھود و النصاری اولیاء کا شان نزول اگرچہ اس کا حکم عام ہے تمام مومنین کو شامل ہے۔ بعض حضرات نے کہا کہ یہ آیت حضرت عبادہ بن صامت ؓ اور عبداللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں نازل ہوئی کہ ان دونوں کا جھگڑا ہوا تو حضرت عبادہ ؓ نے فرمایا میرے کئی یہودی دوست ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ اور قوت بہت ہے۔ میں ان سے برأت ظاہر کرتا ہوں اللہ اور اس کے رسول کی طرف اب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سوا میرا کوئی دوست نہیں ہے لیکن عبداللہ بن ابی کہنے لگا کہ میں یہود کی دوستی سے برأت ظاہر نہیں کرتا کیونکہ میں پریشانیوں کے آنے سے ڈرتا ہوں اور اس وقت ان کی ضرورت پڑے گی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے ابوالحباب تو نے عبادہ ؓ کی دوستی پر یہود کی دوستی کو ترجیح دی ہے تو تیرے لیے صرف انہی کی دوستی ہوگی نہ کہ عبادہ ؓ کی۔ اس نے کہا میں اس کو قبول کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ سدی (رح) فرماتے ہیں کہ جب جنگ احد ہوئی تو بعض لوگوں کو شدید خوف ہوا کہ کفار ہم پر غلبہ حاصل نہ کرلیں تو مسلمانوں میں سے ایک آدمی کہنے لگا کہ میں فلاں یہودی کے ساتھ مل جاتا ہوں اور اس سے امان لیتا ہوں کیونکہ یہ خوف ہے کہ کل کو یہود ہم پر غلبہ حاصل کرلیں اور دوسرے شخص کہنے لگے کہ میں ملک شام کے فلاں نصرانی کے ساتھ مل جاتا ہوں اور ان سے امان لیتا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی اور ان دونوں حضرات کو ایسا کرنے سے منع کیا۔ عکرمہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ ایت البولبابہ بن عبدالمنذر کے بارے میں نازل ہوئی۔ نبی کریم ﷺ نے جب بنو قریظہ کا محاصرہ کیا تھا تو ابو لبابہ ؓ کو ان کے پاس بھیجا تھا تو ان لوگوں نے ہتھیار ڈالنے کے بارے میں حضرت ابولبابہ ؓ سے مشورہ کیا اور پوچھا اگر ہم ہتھیار ڈال دیں ہمارے ساتھ کیا حشر ہوگا ؟ تو ابو لبابہ ؓ نے اپنی انگلی حلق پر پھیر کر اشارہ کیا کہ قتل کیے جائوں گے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (بعضھم اولیاء بعض وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں) مدد کرنے میں اور مسلمانوں کے خلاف یہ سب ایک ہیں (ومن یتولھم منکم اور جو کوئی تم میں سے ان سے دوستی کرے) تو پھر ان کی موافقت اور مدد کرے (فانہ منھم ان اللہ لایھدی القوم الظالمین تو وہ انہی میں ہے اللہ ہدایت نہیں کرتا ظالم لوگوں کو) (فتری الذین فی قلوبھم مرض اب آپ دیکھیں گے ان کو جن کے دل میں بیماری ہے) یعنی نفاق ہے اس سے مراد عبداللہ بن ابی اور اس کے منافق ساتھی ہیں جو یہود سے دوستی رکھتے تھے (یاسرعون فیھم دوڑ کر ملتے ہیں ان میں ) ان کی مدد اور دوستی میں (یقولون نخشی ان تصیبنا دائرۃ کہتے ہیں کہ ہم کو ڈر ہے کہ نہ آجائے ہم پر گردش زمانہ کی) یعنی زمانہ کی کوئی مصیبت ہم پر آجائے اور ہمیں ان کی مدد کی ضرورت پڑجائے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ انہوں نے کہا ہمیں خوف ہے کہ محمد ﷺ کا دین کامیاب نہ ہو اور مصیبت ہم پر آجائے اور بعض نے کہا کہ ان کو یہ ڈر تھا کہ کوئی شک سالی یا قحط آجائے تو یہ لوگ ہمیں قرض اور خوراک نہ دیں گے (فعسی اللہ ان یاتی بالفتح سو قریب ہے کہ اللہ جلد ظاہر فرمائے فتح) قتادہ اور مقاتل رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ محمد ﷺ کی مخالفین پر مدد کرکے کھلا فیصلہ کردے اور کلبی و سدی رحمہما اللہ فرماتے ہیں فتح مکہ مراد ہے اور ضحاک (رح) فرماتے ہیں یہود کے علاقہ خیبر ، فدک وغیرہ کی فتح مراد ہے (اوا مومن عندہ یا کوئی حکم اپنے پاس) بعض نے کہا : محمد ﷺ کا معاملہ مکمل کرکے اور بعض نے کہا ان کے لیے عذاب مراد ہے اور بعض نے کہا بنو نضیر کی جلاوطنی مراد ہے ( فیصحبوا تو لگیں ) یہ منافین (علی مااسروافی الفسھم اپنے نفس کی چھپی بات پرپچھتانے ) یعنی یہود کی دوستی اور ان کی طرف خبریں پہنچانے پر۔ (نادمین)
Top