آیت نمبر 71, 70, 69, 68
تفسیر : (قل یاھل الکتب لستم علی شیء حتی تقیموا التورۃ والانجیل وما انزل الیکم من ربکم آپ کہہ دیں اے اہل کتاب تم کسی راہ پر نہیں جب تک نہ قائم کرو تورات اور انجیل کو اور جو تم پر اترا تمہارے رب کی طرف سے یعنی تورات و انجیل کے احکام کو قائم کرو اور جو کچھ واجب ہے اس کو ادا کرو ( ولیزیدن کثیراً منھم مآ انزل الیک من ربک طغیاناً وکفراً فلا تاس علی القوم الکفرین اور ان میں سے بہت لوگوں کو بڑھے گی اس کلام سے جو تجھ پر اترا تیرے رب کی طرف سے شرارت اور کفر سو آپ افسوس نہ کریں اس قوم کفار پر)
(ان الذین امنوا والذین ھادوا والصبون والنصریٰ بیشک جو مسلمان ہیں اور جو یہودی ہیں اور فرقہ صابی اور نصاریٰ ) اس کا حق یہ تھا کہ ” الصابئین “ پڑھا جاتا لیکن سورت بقرہ میں ہم اس کے مرفوع ہونے کی وجہ بیان کرچکے ہیں۔ سیبویہ (رح) فرماتے ہیں کہ اس میں تقدیم و تاخیر ہے۔ اصل عبارت یوں تھی۔ ” ان الذین امنوا والذین ھادوا والنصاریٰ من امن باللہ … الخ “ آیت کے آخر تک ” والصابئون کذلک “ (ان الذین امنوا بیشک لوگ ایمان لائے) زبان کے ساتھ (من امن باللہ جو کوئی ایمان لائے اللہ پر) یعنی دل سے اور کہا گیا ہے کہ ” الذین امنوا “ یعنی ایمان کی حقیقت پر ایمان لائے۔ ” من امن باللہ “ یعنی ایمان پر ثابت قدم رہے ( والیوم الاخر وعمل صالحاً فلا خوف علیھم ولاھم یحزنون اور روز قیامت پر اور عمل کرے نیک نہ ان پر ڈر ہے نہ وہ غمگین ہوں گے)
(لقد اخذنا میثاق بنی اسرآء یل ہم نے لیا تھا پختہ قول بنی اسرائیل سے) توحید اور نبوت کے بارے میں (وارسلنا الیھم رسلاط کلما جآء ھم رسول م بما لا تھویٰ انفسھم فریقاً کذبوا اور بھیجے ان کی طرف رسول جب لایا ان کے پاس کوئی رسول وہ حکم جو خوش نہ آیا ان کے جی کو تو بہت ساروں کو جھٹلایا) یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) اور محمد ﷺ کو (وفریقاً یقتلون اور بہت ساروں کو قتل کر ڈالتے تھے ) جیسے یحییٰ اور زکریا علیہم السلام۔
(وحسبوا الا تکون فتنۃ اور خیال کیا کہ کچھ خرابی ہوگی) یعنی عذاب اور قتل نہ ہوگا اور کہا گیا ہے کہ آزمائش اور امتحان نہ ہوگا۔ یعنی ان کا خیال تھا ان پر آزمائش نہ آئے گی اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہ دیں گے۔ اہل بصرہ ، حمزہ ، کسائی رحمہما اللہ نے تکون کو نون کے پیش کے ساتھ پڑھا ہے کہ یہ اصل میں ” انھا لاتکون “ تھا اور باقی حضرات نے نون کے نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ جیسا کہ اگر تکون سے پہلے لا نہ ہوتا تو پڑھا جاتا ( فعموا سو اندھے ہوگئے) حق کے دیکھنے سے (وصموا اور بہرے) حق کو سننے سے یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حق بات سننے اور دیکھنے سے اندھے بہرے ہوگئے۔ ( ثم تاب اللہ علیھم پھر توبہ قبول کی اللہ نے ان کی) عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھیج کر ( ثم عموا وصموا کثیرا منھم پھر اندھے اور بہرے ہوئے ان میں سے بہت ) محمد ﷺ کا انکار کرکے ( واللہ بصیرم بما یعملون اور اللہ دیکھتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں) ۔