Tafseer-e-Baghwi - Al-Maaida : 99
مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا تَكْتُمُوْنَ
مَا : نہیں عَلَي الرَّسُوْلِ : رسول پر۔ رسول کے ذمے اِلَّا الْبَلٰغُ : مگر پہنچا دینا وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا تُبْدُوْنَ : جو تم ظاہر کرتے ہو وَمَا : اور جو تَكْتُمُوْنَ : تم چھپاتے ہو
پیغمبر کے ذمے تو صرف (پیغام خدا کا) پہنچا دینا ہے۔ اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ مخفی کرتے ہو خدا کو سب معلوم ہے۔
آیت نمبر 101, 100, 99 تفسیر :(ما علی الرسول الا البلغ رسول کے ذمہ نہیں ہے مگر پہنچا دینا تبلیغ کے ذریعے واللہ یعلم ماتبدون وما تکتمون اور اللہ کو معلوم ہے جو کچھ تم ظاہر میں کرتے ہو اور جو چھپا کر کرتے ہو) (قل لا یستوی الخبیث والطیب آپ کہہ دیجئے کہ برابر نہیں ناپاک اور پاک) یعنی حلال اور حرام (ولو اعجبک اگرچہ تجھ کو بھلی لگے کثیرۃ الخبیث ناپاک کی کثرت) یہ آیت شریح بن ضبعہ الجکری اور حجاج بن بکر بن وائل کے بارے میں نازل ہوئی ( فاتقوا اللہ سو ڈرتے رہو اللہ سے) اور حاجیوں کو نہ چھیڑو اگرچہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں اور یہ قصہ سورت کی ابتداء میں گزر چکا ہے ( یاولی الالباب لعلکم تفلحون اے عقلمند ! تاکہ تمہاری نجات ہو) (یایھا الذین امنوا لاتسئلوا عن اشیاء ان تبدلکم تسوکم اے ایمان والو ! مت پوچھو ایسی باتیں کہ اگر تم پر کھولی جائیں تو تم کو بری لگیں) لاتسئلوا عن اشیآء ان تبدلکم کی تفسیر قتادہ نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے کئی سوالات کیے یہاں تک کہ آپ (علیہ السلام) کو زچ کردیا تو آپ (علیہ السلام) ناراض ہوگئے اور منبر پر چڑھے اور فرمایا آج کے دن تم مجھ سے جس چیز کا پوچھو گے میں تم کو جواب دوں گا تو میں دائیں اور بائیں دیکھنے لگا۔ اچانک ایک آدمی اپنے سر کو کپڑے میں لپیٹ کر رو رہا تھا اور ایک شخص کا جب بھی آدمیوں سے جھگڑا ہوتا تو لوگ ان کی نسبت ان کے والد کے علاوہ کی طرف کرتے کہ تو فلاں کا بیٹا ہے تو انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول ! ( ﷺ) میرا با پ کون ہے تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا خدا فہ۔ تو حضرت عمر ؓ کہ نے لگے کہ ہم راضی ہوئے اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے رسول ہونے پر۔ ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں فتنوں سے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں آج کے دن کی طرح خیر اور شر میں کوئی دن نہیں دیکھا یہاں تک کہ میرے لیے جنت اور جہنم کی صورت لائی گئی۔ حتیٰ کہ میں نے ان و دیوار کے پیچھے دیکھ لیا اور قتادہ (رح) جب اس کو بیان کرتے تو اس کے ساتھ یہی آیت پڑھتے ( اے ایمان والو ! مت پوچھو ایسی باتیں کہ اگر تم پر کھولی جائیں تو تم کو بری لگیں) ابن شہاب (رح) کہتے ہیں کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ نے خبردی کہ عبداللہ بن حذافہ کے والد نے ان کو کا کہ میں نے تجھ سے بڑا نافرمان آج تک نہیں سنا۔ کیا تو اس بات سے بےخوف ہوگیا ہ اگر تیری ماں نے بھی جاہلیت کی عورتوں کی طرح کچھ کردیا ہو تو تو اس سوال سے اس کو لوگوں پر رسوا کردے گا ؟ تو عبداللہ بن حذافہ ؓ نے جواب دیا اللہ کی قسم اگر حضور ﷺ میرانسب کسی کالے غلام کے ساتھ ملا دیتے تو میں اس کے ساتھ مل جاتا۔ حضرت عمر ؓ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم جاہلیت کے زمانہ سے نئے نئے آئے ہیں آپ (علیہ السلام) ہم سے درگزر کیجئے اللہ تعالیٰ آپ (علیہ السلام) سے درگزر کریں گے تو آپ (علیہ السلام) کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ بعض لوگ رسول اللہ ﷺ سے ” استھزاء “ کچھ سوال کرتے تھے کوئی کہتا میرا باپ کون ہے ؟ اور ایک آدمی کہتا جس کی اونٹنی گم ہوگئی ہوتی کہ میری اونٹنی کہاں ہے ؟ تو ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ جب آیت کریمہ (واللہ علی الناس حج البیت) اور اللہ کے لیے ہے لوگوں پر بیت اللہ کا حج) تو ایک شخص کہنے لگا یارسول اللہ ﷺ ! کیا ہر سال میں حج ہے ؟ تو نبی کریم نے اعراض کیا۔ ان صحابی ؓ نے دو یا تین مرتبہ پھر پوچھا۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا میرے ہاں کہنے تک آپ کو اطمینان نہ ہوگا ؟ اللہ کی قسم اگر میں ہاں کہہ دوں تو ہر سال واجب ہوجائے گا اور اگر ہر سال واجب ہوگیا تو تم اس کی طاقت نہ رکھو گے تو جو بات میں چھوڑ دوں اس کو تم بھی چھوڑ دو تم سے پہلے لوگ اپنے کثرت سوال اور انبیاء (علیہم السلام) سے اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ پس جب میں کسی کام کا حکم دوں تو جتنی طاقت رکھتے ہو اس پر عمل کرو اور جب کسی چیز سے منع کروں تو اس سے باز آجائو ( رواہ البخاری) تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فمائی (اور اگر تم پر کھولی جائیں تو بری لگیں تم کو) یعنی اگر تمہارے لیے ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ اگر تم کو ان پر عمل کرنے کا حکم دے دیا جائے کیونکہ جس نے حج کا سوال کیا وہ اس بات سے بےخوف نہیں تھا کہ ہر سال میں حکم کردیا گیا تو برا لگے گا اور جس نے نسب کا سوال کیا اگر اس کو کسی دوسرے کے ساتھ ملا دیا جاتا تو اس رسوائی سے وہ بےخوف نہ تھا اور مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ جب صحابہ کرام ؓ نے بحیرہ سائبۃ اور حام کے بارے میں سوال کیا تو یہ آیت نازل ہوئی آپ خود بعد والی آیت کو دیکھ لیں کہ اس میں ہے کہ (وان تسئلوا عنھا حین ینزل القرآن تبدلکم اور اگر پوچھو گے یہ باتیں ایسے وقت میں کہ قرآن نازل ہورہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی) مطلب یہ ہے کہ تم صبر کروں یہاں تک کہ خود قرآن میں فرض یا نہی یا کوئی اور حکم اتر آئے کیونکہ ظاہر آیات میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ جس کی شرح کی تم کو ضرورت ہو۔ اگر اب بھی سوال کرو گے تو تمہارے سامنے ظاہر کردی جائے گی۔ (عفا اللہ عنھاط واللہ غفور حلیم اللہ نے ان سے درگزر کی ہے اور اللہ بخشنے والا تحمل والا ہے)
Top