Tafseer-e-Baghwi - Adh-Dhaariyat : 57
مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ
مَآ اُرِيْدُ : نہیں میں چاہتا مِنْهُمْ : ان سے مِّنْ رِّزْقٍ : کوئی رزق وَّمَآ اُرِيْدُ : اور نہیں میں چاہتا اَنْ : کہ يُّطْعِمُوْنِ : وہ کھلائیں مجھ کو
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں
56 ۔” وما خلقت الجن ولانس الا لیعبدون “ کلبی، ضحاک اور سفیان رحمہم اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ دونوں فریقوں میں سے اہل طاعت کے ساتھ خاص ہے۔ اس پر ابن عباس ؓ کی قرات دلالت کرتی ہے۔ ” وما خلقت الجن والانس، من المومنین الا لیعبدون “ پھر دوسری آیت میں فرمایا ” ولقد ذرانا لجھنم کثیرا من الجن والانس “ اور ان میں سے بعض نے کہا ہے کہ میں نے جنوں اور انسانوں میں سے نیک بختوں کو نہیں پیدا کیا مگر اپنی عبادت کے لئے اور ان میں سے بدبختوں کو اپنی معصیت کے لئے اور یہ زید بن اسلم کے قول کا معنی ہے۔ فرمایا وہ لوگ اسی پر ہیں جو ان کی طبیعت بنائی گئی شقاوت وسعادت کی۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ فرماتے ہیں ” الا لیعبدون “ یعنی مگر اس لئے کہ میں ان کو حکم دوں کہ وہ میری عبادت کریں اور میں ان کو اپنی عبادت کی طرف بلائوں، اس کی تائید اللہ تعالیٰ کا قول ” وما امروا الا لیعبدوا الھا واحد “ کرتا ہے اور مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ مگر تاکہ وہ مجھے پہچان لیں اور یہ احسن ہے اس لئے کہ اگر ان کو پیدا نہ کرتا تو اس کا وجود اور توحیدنہ پہچانی جاتی۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ” ولئن سالتھم من خلقھم لیقولن اللہ “ ہے اور کہا گیا ہے کہ اس کا معنی ہے مگر تاکہ میری تابعداری اور فرمانبرداری کریں اور عبادت کا معنی لغت میں عاجزی اور تابعداری ہے۔ پس جنوں و انسانوں میں سے ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کی قضاء کے سامنے پست ہے اور اس کی مشیت کے سامنے عاجز ہے۔ کوئی اپنے نفس کا مالک نہیں کہ اس سے ایک ذرہ بھر نکل جائے جس پر وہ پیدا کیا گیا ہے ۔ نفع یا نقصان پر اور کہا گیا ” الا لیعبدون الا لیوحدون “ کے معنی میں ہے کہ وہ میری توحید کے قائل ہوں۔ پس مومن تو سختی اور آسانی میں اس کی توحید کرتا ہے اور کافر سختی اور مصیبت میں تو اس کی توحید کرتا ہے نہ کہ نعمت اور آسانی میں اس کا بیان اللہ تعالیٰ کا قول ہے ” فاذارکبوا فی الفلک دعواللہ مخلصین لہ الدین “۔
Top