Tafseer-e-Baghwi - At-Tur : 22
وَ اَمْدَدْنٰهُمْ بِفَاكِهَةٍ وَّ لَحْمٍ مِّمَّا یَشْتَهُوْنَ
وَاَمْدَدْنٰهُمْ : اور مدد دیں گے ہم ان کو۔ زیادہ دیں گے ہم ان کو۔ پے در پے دیں گے ہم ان کو بِفَاكِهَةٍ : پھل وَّلَحْمٍ : اور گوشت مِّمَّا يَشْتَهُوْنَ : اس میں سے جو وہ خواہش کریں گے
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہِ ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے اعمال میں پھنسا ہوا ہے
21 ۔” والذین امنوا واتبعتھم ذریتھم بایمان “ ابو عمرو نے ” اتبعناھم “ الف قطعی کے ساتھ تعظیم کی وجہ سے پڑھا ہے ۔ ” ذریاتھم “ الف اور تاء کی زیر کے ساتھ دونوں میں۔ اللہ تعالیٰ کے قول ” الحقنا بھم “ اور ” وماالتناھم “ کی وجہ سے تاکہ کلام ایک ترتیب پر ہوجائے اور دیگر حضرات نے ” واتبعتھم “ الف وصلی اور اس کے بعد تاء مشدد اور آخری تاء کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے۔ پھر ان کا اختلاف ہوا ہے ” ذریتھم “ میں۔ اہل مدینہ نے پہلے کو بغیر الف اور تاء کی پیش کے ساتھ پڑھا ہے اور دوسرے کو الف اور تاء کی زیر کے ساتھ۔ اوراہل شام اور یعقوب نے دونوں کو الف کے ساتھ اور تاء کی زیر کے ساتھ دوسرے میں اور دیگر حضرات نے دونوں کو بغیر الف کے اور پہلے میں تاء کے پیش اور دوسرے میں تاء کے زبر کے ساتھ اور اس آیت کے معنی میں اختلاف ہوا ہے۔ ایک قوم نے کہا ہے کہ اس کا معنی ” والذین امنوا واتبعتھم ذریتھم بایمان “ یعنی ان کی چھوٹی اور بڑی اولاد پس بڑی اولاداپنے ایمان کی وجہ سے اور چھوٹی اپنے آباء کے ایمان کی وجہ سے کیونکہ چھوٹے بچے کے اسلام کا حکم کیا جائے گا، اس کے والدین میں سے کسی ایک کے تابع کرتے ہوئے۔ ” الحقنابھم ذریتھم “ مومنین کو جنت میں ان کے درجات کے ساتھ اگرچہ وہ اپنے اعمال کی وجہ سے اپنے آباء کے درجہ تک نہ پہنچ سکیں گے، یہ ان کے آباء کا اعزاز ہوگا تاکہ ان کی آنکھیں اس کے ذریعہ ٹھنڈی ہوں اور یہی سعید بن جبیر (رح) کی ابن عباس ؓ سے روایت ہے۔ اور دیگر حضرات نے کہا ہے اس کا معنی ” واللذین امنوا واتبعتھم ذریتھم “ بالغ اولاد وایمان کے ساتھ تو ہم ان کے ساتھ ان کی چھوٹی اولاد کو بھی لاحق کردیں گے جو ایمان کو نہیں پہنچے ان کے آباء کے ایمان کی وجہ سے۔ اور یہ ضحاک (رح) کا قول ہے اور عوفی کی ابن عباس ؓ سے روایت ہے اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ اپنے مومن بندے کے لئے اس کی اولاد کو جنت میں جمع کردیں گے جیسا کہ وہ دنیا میں پسند کرتا تھا کہ وہ اس کے پاس جمع ہوں۔ ان کو جنت میں داخل کریں گے اپنے فضل کے ساتھ اور ان کو ان کے درجہ پر پہنچائیں گے اس کے باپ کے عمل کی وجہ سے بغیر اس کے کہ آباء کے اعمال سے کچھ کم کیا جائے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا قول ” وما التناھم “ ہے۔ ابن کثیر (رح) نے لام کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے اور باقی حضرات نے لام کے زبر کے ساتھ۔ یعنی ہم ان یعنی آباء سے کچھ کم نہ کریں گے۔ ” من عملھم من شیء “ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مومن کی اولاد کو اس کے درجہ میں بلند کریں گے۔ اگرچہ وہ اس عمل سے کم ہوں گے تاکہ ان کے ذریعے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈا کریں۔ پھر پڑھا : ” والذین امنوا واتبعتھم ذریتھم بایمان الحقنا بھم ذریتھم “ آیت کے آخر تک۔ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ حضرت خدیجہ ؓ نے پوچھا نبی کریم ﷺ سے اپنے ان بچوں کے بارے میں جو جاہلیت میں مرگئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ دونوں جہنم میں ہیں۔ پس جب ان کے چہرے پر ناگواری کو دیکھا تو فرمایا اگر تو ان کا ٹھکانہ دیکھ لیتی تو ان سے نفرت کرتی۔ تو انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! پس میرے آپ (علیہ السلام) سے جو بچے ہوئے ہیں۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا جنت میں ہیں۔ پھر آپ (علیہ السلام) نے فرمایا بیشک مومنین اور ان کی اولاد جنت میں ہے اور مشرکین اور ان کی اولاد جہنم میں ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے پڑھا ” واللذین امنوا واتبعتھم ذریتھم بایمان الحقنا بھم ذریتھم “ … ” کل امری بما کسب رھین “۔ مقاتل (رح) فرماتے ہیں کہ ہر کافر بندہ جس نے شرک کا عمل کیا اس کی وجہ سے آگ میں رہن رکھا ہوا ہے اور مومن رہن نہیں ہے۔ بوجہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ” کل نفس بما کسبت رھینہ الا اصحاب الیمین “ پھر ذکر کیا جوان کو خیر اور نعمت زیادہ دیں گے۔
Top