Tafseer-e-Baghwi - An-Najm : 15
عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰىؕ
عِنْدَهَا : اس کے پاس جَنَّةُ الْمَاْوٰى : جنت الماویٰ ہے
پرلی حد کی بیری کے پاس
سدرۃ المنتہیٰ کی تفسیر 14 ۔” عندسدرۃ المنتھیٰ “ اور ابن عباس ؓ کے قول پر ” نزلۃ اخریٰ “ کا معنی یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ معراج کی رات کئی مرتبہ اوپر گئے نماز کی تعداد میں تخفیف کروانے کے لئے ۔ پس ہر عروج کے لئے زوال ہوتا ہے۔ پس ان میں سے کسی میں اپنے رب کو دیکھا اور ہم تک ان سے روایت پہنچی ہے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو اپنے دل کے ساتھ دو مرتبہ دیکھا ہے اور ان سے یہ بھی روایت ہے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو اپنی آنکھ سے دیکھا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول ” عندسدرۃ المنتھیٰ “ ہم تک عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت پہنچی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لیجایا گیا۔ اور وہ ساتویں آسمان میں ہے اور زمین سے جو چیزیں اوپر جاتی ہیں ان کی انتہا اسی کے پاس ہوتی ہے اور اس کے اوپر سے جو چیزیں اترتی ہیں وہ بھی اس کے پاس آکر رک جاتی ہیں۔ فرمایا ” اذ یغشی السدرۃ ما یغشی “ کہا سونے کے پتنگے تھے اور حدیث معراج میں ہم تک روایت پہنچی کہ پھر مجھے ساتویں آسمان تک بلند کیا گیا۔ پس اچانک وہاں ابراہیم (علیہ السلام) تھے۔ پس میں نے ان کو سلام کیا، پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک بلند کیا گیا۔ پس اس کے بیر ہجر (قبیلہ) کے مٹکوں کی طرح تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے اور سدرۃ بیری کا درخت اور اس کو سدرۃ المنتہیٰ کہا جاتا ہے اس لئے کہ اس تک مخلوق کے علم کی انتہا ہوجاتی ہے۔ ہلال بن یسار (رح) فرماتے ہیں ابن عباس ؓ نے کعب (رح) سے سدرۃ المنتہیٰ کے بارے میں پوچھا اور میں بھی حاضر تھا تو کعب (رح) نے کہا یہ بیری کا درخت عرش کی جڑ میں ہے۔ عرش کو اٹھانے والے فرشتوں کے سروں پر اور اسی تک مخلوق کے علم کی انتہا ہوتی ہے اور جو اس کے پیچھے ہے وہ غیب ہے اس کو صرف اللہ تعالیٰ جانتے ہیں۔ اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو سدرۃ المنتہیٰ کا تذکرہ کرتے سنا۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا سوار شخص اس کی ایک ٹہنی کے سایہ میں سو 100 سال چل سکتا ہے اور اس کی ایک ٹہنی کے سایہ میں ایک ہزار سوار سایہ حاصل کرسکتے ہیں۔ اس میں سونے کے پتنگے تھے۔ گویا کہ اس کے پھل مٹکے ہیں اور مقاتل (رح) فرماتے ہیں وہ درخت ہے جو مختلف رنگوں کے پھل اٹھائے ہوئے ہے۔ اگر اس کا ایک پتہ زمین میں رکھ دیا جائے تو تمام زمین والے روشن ہوجائیں اور وہ طوبیٰ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة الرعد میں کیا ہے۔
Top