Tafseer-e-Baghwi - An-Najm : 23
اِنْ هِیَ اِلَّاۤ اَسْمَآءٌ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ مَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ١ۚ وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰىؕ
اِنْ هِىَ : نہیں وہ اِلَّآ اَسْمَآءٌ : مگر کچھ نام ہیں سَمَّيْتُمُوْهَآ : نام رکھے تم نے ان کے اَنْتُمْ : تم نے وَاٰبَآؤُكُمْ : اور تمہارے آباؤ اجداد نے مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ : نہیں نازل کی اللہ نے بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ ۭ : ساتھ اس کے کوئی دلیل اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ : نہیں وہ پیروی کرتے اِلَّا الظَّنَّ : مگر گمان کی وَمَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ ۚ : اور جو خواہش کرتے ہیں نفس وَلَقَدْ جَآءَهُمْ : اور البتہ تحقیق آئی ان کے پاس مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰى : ان کے رب کی طرف سے ہدایت
یہ تقسیم تو بہت بےانصافی کی ہے
22 ۔” تلک اذا قسمۃ ضیزی “ ابن عباس ؓ اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں یعنی ظالم تقسیم ہے کہ تم نے اپنے رب کے لئے وہ چیز مقرر کی جو تم خود اپنے لئے ناپسند کرتے ہو۔ مجاہد اور مقاتل رحمہما اللہ فرماتے ہیں ٹیڑھی تقسیم ہے اور حسن (رح) فرماتے ہیں غیر معتدل۔ ابن کثیر (رح) نے ” ضئزی “ ہمزہ کے ساتھ پڑھا ہے اور دیگر حضرات نے بغیر ہمزہ کے۔ کسائی (رح) فرماتے ہیں اسی سے کہا جاتا ہے ” ضاز، یضیز، ضیزا “ اور ” ضاز یضوز ضوزا “ اور ضاز یضاز ضازا “ جب ظلم کرے اور کم کرے اور ضیزی کی اصل کلام سے فعلی فاء کے پیش کے ساتھ ہے ۔ اس لئے کہ یہ صفت ہے اور صفات صرف فعلی بضم الفاء کے وزن ہوتی ہیں جیسے ” حبلی انثیٰ اور بشری “ یا فعلی فاء کے زبر کے ساتھ کے وزن پر جیسے ” غضبیٰ ، شکریٰ “ اور ” عطشی “ اور کلام عرب میں کوئی صفت فعلی فاء کی زیر کے ساتھ نہیں ہے۔ ہاں اسماء میں یہ وزن آتا ہے جیسے ” ذکریٰ ، شعریٰ کسریٰ “ اور ضاد یہاں اس لئے ہے تاکہ یاء وائو سے تبدیل نہ ہوجائے اور یہ باء والوں میں سے ہے جیسا کہ انہوں نے کہا ابیض کی جمع بیض اور اصل بوض ہے جمرا اور صفر کی مثل۔ پس بہرحال جس نے کہا ” ضاز یضوز “ تو اس سے اسم ” ضوزی “ ہے شوریٰ کی مثل۔
Top