Tafseer-e-Baghwi - An-Najm : 8
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰىۙ
ثُمَّ دَنَا : پھر قریب آیا فَتَدَلّٰى : پھر اتر آیا
اور وہ (آسمان کے) اونچے کنارے میں تھے
7 ۔” وھو “ یعنی محمد ﷺ اور اکثر کلام عرب میں جب اس کی مثل میں عطف ڈالنا ہو تو وہ معطوف علیہ میں ضمیر کو ظاہر کرتے ہیں۔ پس وہ کہتے ہیں ” استویٰ ھو وفلان “ اور بہت کم وہ ایسے کہیں گے ” استویٰ وفلان “ اور اس کی نظیر اس کا قول ” ائذا کا ترابا وآبائونا “ ہے۔ آباء کا عطف کنا کی ضمیر پر ہے نحن کو ظاہر کرنے کے بغیر اور آیت کا معنی استویٰ جبرئیل ومحمد (علیہما السلام) لیلۃ المعراج ہے۔” بالافق الاعلی “ اور وہ دنیا کی انتہا سورج کے طلوع ہونے کی جگہ۔ اور کہا گیا ہے ” فاستویٰ “ یعنی جبرائیل (علیہ السلام) اور جبرائیل (علیہ السلام) سے بھی کنایہ ہے یعنی وہ اپنی صورت میں کھڑے ہوئے جس پر ان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ ” وھوبالافق الاعلیٰ “ جبرئیل (علیہ السلام) رسول اللہ ﷺ کے پاس آدمیوں کی صورت میں آتے تھے۔ جیسا کہ پہلے انبیاء (علیہم السلام) کے پاس آتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے سوال کیا کہ ان کو اپنی وہ صورت دکھائیں جس پر وہ پیدا کیے گئے ہیں تو انہوں نے اپنی صورت دو مرتبہ دکھائی۔ ایک مرتبہ زمین میں اور ایک مرتبہ آسمان میں۔ بہرحال زمین میں تو افق اعلیٰ میں اور مراد اعلیٰ سے مشرق کی جانب ہے کیونکہ محمد ﷺ حراء میں تھے تو جبرئیل (علیہ السلام) آپ (علیہ السلام) کے لئے مشرق سے طلوع ہوئے تو مغرب تک افق کو بند کردیا تو رسول اللہ ﷺ غشی کھا کر گرگئے تو جبرئیل (علیہ السلام) آدمیوں کی صورت میں اترے اور آپ (علیہ السلام) کو خود سے ملایا اور آپ (علیہ السلام) کے رخ انور سے غبار صاف کیا اور وہ اللہ تعالیٰ کا قول ” ثم دانا فتدلی “ اور بہرحال آسمان میں تو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اور جبرئیل (علیہ السلام) کو اس صورت میں انبیاء (علیہم السلام) میں سے صرف ہمارے نبی محمد ﷺ نے دیکھا ہے۔
Top