Tafseer-e-Baghwi - Ar-Rahmaan : 30
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ : تو ساتھ کون سی نعمتوں کے رَبِّكُمَا : اپنے رب کی تم دونوں تُكَذِّبٰنِ : تم دونوں جھٹلاؤ گے
آسمان اور زمین میں جتنے لوگ ہیں سب اسی سے مانگتے ہیں وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے
29 ۔” یسالہ من فی السموات والارض “ فرشتے اور جن وانس میں سے ۔ اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں اس کا معنی یہ ہے کہ اس سے زمین و آسمان والے مستغنی نہیں ہیں۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں پس آسمان والے اس سے مغفرت کا سوال کرتے ہیں اور زمین والے اس سے رزق، توبہ اور مغفرت کا سوال کرتے ہیں اور مقاتل (رح) فرماتے ہیں اس سے زمین والے رزق اور مغفرت کا سوال کرتے ہیں اور فرشتے بھی ان کے لئے رزق اور مغفرت کا سوال کرتے ہیں۔ ” کل یوم ھو فی شان “ مقاتل (رح) فرماتے ہیں کہ یہ یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جب انہوں نے کہا بیشک اللہ تعالیٰ ہفتہ کے دن کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔ مفسرین رحمہم اللہ فرماتے ہیں اس کی شان یہ ہے کہ وہ زندگی دیتا اور موت دیتا ہے اور رزق دیتا ہے اور ایک قوم کو عزت دیتا ہے اور ایک قوم کو ذلیل کرتا ہے اور مریض کو شفا دیتا ہے اور قیدی کو چھڑاتا ہے اور مصیبت زدہ کی مصیبت دور کرتا ہے اور پکارنے والے کو جواب دیتا ہے اور مانگنے والے کو دیتا ہے اور گناہ معاف کرتا اور مخلوق کے بارے میں اس کے افعال واحداث احاطہ شمار سے باہر ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ان چیزوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیں ایک تختی ہے جو سفید موتی کی بنی ہے اس کے گتے سبز یا قوت کے ہیں اس کا قلم نور ہے اور نور کی لکھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر ہر دن تین سو ساٹھ مرتبہ نظر کرتے ہیں، پیدا کرتے اور رزق دیتے ہیں اور زندہ کرتے اور موت دیتے ہیں اور عزت وذلت دیتے ہیں اور جو چاہے کرتے ہیں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا قول ” کل یوم ھو فی شان “ ہے۔ سفیان بن عینیہ (رح) فرماتے ہیں سارا ادھر اللہ تعالیٰ کے ہاں دو دن ہیں، ان میں سے ایک دنیا کے ایام کی مدت اور دوسرا قیامت کا دن۔ پس وہ شان جس میں وہ ہے وہ دن ہے جو دنیا کی مدت میں ہے امرونہی کے ذریعے آزمائش کرنا، زندہ کرنا، موت دینا اور عطاء کرنا اور روکنا اور قیامت کے دن کی شان جزاء اور حساب اور ثواب و عقاب ہے اور کہا گیا ہے۔ حق تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ ہر دن ورات میں تین لشکر نکالتا ہے ایک لشکرآباء کی پشتوں سے مائوں کے رحموں کی طرف اور ایک لشکر رحموں سے دنیا کی طرف اور ایک لشکر دنیا سے قبروں کی طرف۔ پھر وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف کوچ کریں گے اور حسین بن فضل (رح) فرماتے ہیں وہ تقدیر کو اس کو وقت پر جاری کرنا ہے۔
Top