Tafseer-e-Baghwi - Ar-Rahmaan : 32
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ : تو ساتھ کون سی نعمتوں کے رَبِّكُمَا : اپنے رب کی تم دونوں تُكَذِّبٰنِ : تم دونوں جھٹلاؤ گے
اے دونوں جماعتو ! ہم عنقریب تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں
31 ۔” سنفرغ لکم “ حمزہ اور کسائی رحمہما اللہ نے سیفرغ یاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قول ” یسالہ من فی السموات والارض “ اور ” ویبقی وجہ ربک “ اور ” ولہ الجوار “ کی وجہ سے۔ پس خبر کا اتباع کیا اور دیگر حضرات نون کے ساتھ پڑھا ہے اور اس مراد مشغولیت سے فارغ ہونا نہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک شان دوسری سے مشغول نہیں فارغ ہوتا ہوں حالانکہ اس کو کوئی مصروفیت نہیں ہوتی اور یہ ابن عباس ؓ اور ضحاک (رح) کا قول ہے اور یہ فراغ اس وجہ سیاچھا ہے کہ پہلے شان کا ذکر گزر چکا ہے اور دیگر حضرات نے کہا ہے اس کا معنی عنقریب ہم تمہارا ارادہ کریں گے مہلت دینے کے بعد اور ہم تمہارے معاملہ میں شروع ہوں گے جیسے اس شخص کا قول جس کو کوئی مصروفیت نہیں ہوتی لیکن کہتا ہے ” قد تفرغت لک “ میں آپ کے لئے فارغ ہوگیا ہوں۔ اور ان میں سے بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ سے وعدہ کیا ہے اور اہل فجور کو دھمکی دی ہے۔ پھر فرمایا ” سنفرغ لکم “ اس سے جو تم سے وعدہ کیا ہے اور ہم نے تمہیں خبر دی ہے۔ پس ہم تمہارا محاسبہ کریں گے اور تمہیں بدلہ دیں گے اور جو تم سے وعدہ کیا ہے اس کو پورا کریں گے۔ پس ہم اس کو مکمل کریں گے اور اس سے فارغ ہوں گے اور اسی طرف حسن اور مقاتل رحمہما اللہ گئے ہیں۔ ” ایھا الثقلان “ یعنی جب وانس ان کا نام ثقلین رکھا گیا ہے۔ اس لئے کہ زندگی اور موت دونوں میں زمین پر بوجھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” واخرجت الارض اثقالھا “ اور اہل معانی رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ ہر چیز جس کی قدر اور وزن ہو اور گراں قیمت ہو اس میں ثقل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں تم میں ثقلین چھوڑ کر جانے والا ہوں کتاب اللہ اور میری آل۔ پس ان دونوں کو ثقل قرار دیا ان کے قدرومرتبہ کو بڑھانے کے لئے اور جعفر بن محمد صادق ؓ فرماتے ہیں جن و انسان کا نام ثقلین رکھا گیا ہے اس لئے کہ یہ دونوں گناہوں سے بوجھل ہیں۔
Top