Tafseer-e-Baghwi - Al-Hadid : 17
اِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا١ؕ قَدْ بَیَّنَّا لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
اِعْلَمُوْٓا : جان لو اَنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ يُحْيِ الْاَرْضَ : زندہ کرتا ہے زمین کو بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ : اس کی موت کے بعد قَدْ بَيَّنَّا : تحقیق بیان کیں ہم نے لَكُمُ : تمہارے لیے الْاٰيٰتِ : آیات لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَعْقِلُوْنَ : تم عقل سے کام لو
کیا ابھی تک مومنوں کے لئے اس کا وقت نہیں آیا کہ خدا کی یاد کرنے کے وقت اور (قرآن) جو (خدائے) برحق (کی طرف) سے نازل ہوا ہے اس کے سننے کے وقت ان کے دل نرم ہوجائیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو (ان سے) پہلے کتابیں دی گئی تھیں پھر ان پر زمان طویل گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں
16 ۔” الم یان للذین امنوا ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ “ کلبی اور مقاتل رحمہما اللہ فرماتے ہیں یہ منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہجرت کے ایک سال بعد کیونکہ انہوں نے سلمان فارسی ؓ سے ایک دن سوال کیا کہنے لگے ہمیں توریت سے کچھ باتیں بتائیں کیونکہ اس میں عجیب باتیں ہیں تو آیت نازل ہوئی۔ ” نحن نقص علیک احسن القصص “ تو ان کو خبر دی کہ قرآن میں اچھے قصے ہیں اس کے غیر سے تو وہ سلمان ؓ سے کچھ عرصہ جتنا اللہ نے چاہا سوال کرنے سے باز آگئے۔ پھر لوٹے اور سلمان ؓ سے اسی کی مثل سوال کیا تو نازل ہوا۔ ” اللہ نزل احسن الحدیث کتابا متشابھا “ تو وہ جتنا عرصہ اللہ نے چاہا سوال کرنے سے باز آگئے۔ پھر لوٹے اور کہنے لگے ہمیں توریت سے کچھ بیان کریں کیونکہ اس میں عجائب ہیں تو یہ آیت نازل ہوئی۔ پس اس تاویل پر اللہ تعالیٰ کا قول ” الم یان للذین امنوا ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ “ یعنی اعلانیہ اور زبان کے ساتھ اور دیگر حضرات نے فرمایا ہے کہ مومنین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے اسلام اور اس آیت ” الم یان للذین امنوا ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ “ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے ہمیں عتاب کرنے کے درمیان صرف چار سال کا فرق تھا اور ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مومنین کے دلوں کو سست پایا تو قرآن نازل ہونے کے تیرہ سال بعد ان کو عتاب کیا اور فرمایا ” الم یان “ نہیں وقت آیا ان لوگوں کا جو ایمان لائے کہ ” تخشع “ نرم وپتلے ہوجائیں اور جھک جائیں ان کے دل اللہ کے ذکر کے لئے۔ ” ومانزل “ نافع اور حفص نے عاصم سے زاء کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے اور دیگر حضرات نے زاء کی تشدید کے ساتھ ” من الحق “ اور وہ قرآن ہے۔ ” ولا یکونوا کالذین اوتوا الکتاب من قبل “ اور وہ یہود و نصاریٰ ہیں۔ ” فطال علیھم الامد “ زمانہ ان کے درمیان اور ان کے انبیاء (علیہم السلام) کے درمیان اور ان کے انبیاء (علیہم السلام) کے درمیان ” فقست قلوبھم “ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں وہ دنیا کی طرف مائل ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کے مواعظ سے اعراض کیا اور معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کو روکا ہے کہ وہ قرآن کے صحیح ہونے میں ان یہود کی طرح ہوجائیں جن کے دل سخت ہوگئے۔ اس وجہ سے کہ ان پر زمانہ لمبا ہوگیا۔ روایت کیا گیا کہ ابوموسیٰ اشعری ؓ نے اہل بصرہ کے قراء کی طرف پیغام بھیجا تو ان پر تین سو آدمی داخل ہوئے جنہوں نے قرآن پڑھا ہوا تھا تو ان کو فرمایا تم لوگ اہل بصرہ کے بہترین لوگ اور ان کے قاری ہو۔ پس تم اس کی تلاوت کرو اور تم پر امیدیں لمبی نہ ہوں۔ پس تمہارے دل سخت ہوجائیں گے جیسا کہ ان لوگوں کے دل سخت ہوگئے جو تم سے پہلے تھے۔ ” وکثیر منھم فاسقون “ یعنی جن لوگوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) اور محمد ﷺ پر ایمان کو چھوڑ دیا۔
Top