Tafseer-e-Baghwi - Al-Hashr : 18
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوا : ایمان والو اتَّقُوا اللّٰهَ : تم اللہ سے ڈرو وَلْتَنْظُرْ : اور چاہیے کہ دیکھے نَفْسٌ : ہر شخص مَّا قَدَّمَتْ : کیا اس نے آگے بھیجا لِغَدٍ ۚ : کل کے لئے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور تم ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌۢ : باخبر بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
تو دونوں کا انجام یہ ہوا کہ دوزخ میں داخل ہوئے ہمیشہ اس میں رہیں گے اور بےانصافوں کی یہی سزا ہے۔
17 ۔” فکان عاقب تھا “ یعنی شیطان اور اسی انسان کی ” انھما فی النار خالدین فیھا وذلک جزاء الظالمین “ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہ مثال اہل مدینہ کے یہود بنو نضیر اور بنو قریضہ کی بیان کی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا بنو نضیر کو مدینہ سے جلاوطن کرنے کا تو منافقین نے ان کی طرف ایک سازش کی کہ جس کی طرف محمد (ﷺ ) نے تمہیں بلایا ہے تم اس کو قبول نہ کرو اور اپنے گھروں سے نہ نکلو۔ پس اگر انہوں نے تم سے قتال کیا تو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور اگر ہم تمہیں نکالو گے تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکلیں گے تو انہوں نے ان کی بات مان لی اور اپنے قلعوں کے دورازے بند کرلیے اور اپنے شہروں میں پناہ لی۔ منافقین کی مدد کی امید پر حتیٰ کہ ان کے پاس نبی کریم ﷺ آئے تو انہوں نے آپ (علیہ السلام) سے لڑائی کا اعلان کردیا۔ منافقین کی مدد کی امید کرتے ہوئے تو منافقین نے ان کو رسوا کردیا اور ان سے بیزاری ظاہر کی۔ جیسا کہ شیطان نے برصیصا سے بےزاری وبرات ظاہر کی تھی اور اس کو رسوا کردیا تھا تو دونوں فریقوں کا انجام آگ ہوا۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد راہب لوگ بنی اسرائیل میں جھوٹ اور اپنی حالت چھپا کر چلتے تھے اور فاسق وفاجر لوگ علماء میں لالچ کرتے تھے اور ان پر بہتان لگاتے اور بری باتیں کرتے تھے حتیٰ کہ جریج راہب کا واقعہ ہوا۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے اس کو اس الزام سے بری کردیا جو وہ لگا رہے تھے تو اس کے بعدراہب لوگ خوش ہوگئے اور لوگوں کے سامنے ظاہر ہوگئے۔ جریح راہب کا قصہ اور جریج کا قصہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا بچپن کی حالت میں نہیں کلام کی مگر تین افراد نے عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) اور صاحب جریج اور صاحب یوسف۔ اور جریج عبادت گزار بندے تھے۔ انہوں نے ایک عبادت خانہ بنایا، وہ اس میں تھے کہ ان کی ماں آئی اور وہ نماز پڑھ رہے تھے تو کہا اے جریج تو جریج نے کہا اے میرے رب ! میری ماں اور میری نماز۔ پھر نماز کی طرف متوجہ ہوگئے، وہ چلی گئی، پھر اگلے دن وہ آئی وہ نماز پڑھ رہے تھے، کہنے لگی اے جریج ! اس نے کہا اے میرے رب ! میری ماں اور میری نماز، پھر نماز کی طرف متوجہ ہوگیا تو اس نے کہا اے اللہ ! تو اس کو موت نہ دینا حتیٰ کہ یہ بدکار عورتوں کا چہرہ دیکھ لے۔ پھر بنی اسرائیل میں جریج اور اس کی عبادت کے چرچے ہونے لگ گئے اور ایک زانیہ عورت تھی اس کے حسن کی مثالیں دی جات تھیں تو اس نے کہا اگر تم چاہو تو تمہارے لئے میں اس جریج کو فتنہ میں مبتلا کرسکتی ہوں۔ پھر وہ جریج کے پیچھے پڑگئی لیکن وہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے تو وہ ایک چرواہے کے پاس آئی جو جریج کی عبادت خانہ کے قریب آرام کررہا تھا تو اس کو خود پر قدرت دی تو اس نے جماع کرلیا، وہ حاملہ ہوگئی۔ جب بچہ جنا تو کہا یہ جریج کا بچہ ہے تو لوگ جریج کے پاس آئے اس کو اس کی عبادت خانہ سے اتارا اور اس کا عبادت خانہ توڑ دیا اور اس کو مارنے لگے۔ اس نے کہا تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ انہوں نے کا تونے اس بدکار عورت سے زنا کیا ہے اور اس سے تیرا بچہ پیدا ہوا ہے تو جریج نے کہا بچہ کہاں ہے ؟ تو وہ اس کو لائے، اس نے کہا مجھے چھوڑ دو تاکہ میں نماز پڑھ لوں، پھر نماز پڑھی۔ پھر جب نماز پڑھ لی تو بچہ کے پاس آیا اور اس کے پیٹ میں انگلی ماری اور کہا اے بچہ تیرا بات کون ہے ؟ اس نے کہا فلاں چرواہا۔ تو وہ لوگ جریج کو چمٹ گئے اور بوسے دینے لگے اور کہنے لگے ہم آپ کے لئے سونے کا عبادت خانہ بنادیں گے۔ اس نے کہا نہیں، تم واپس مٹی کا بنادو جیسے پہلے تھا تو انہوں نے ایسا ہی کیا اور اسی اثناء میں ایک بچہ اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا تو ایک شخص سواری پر گزرا ، بڑا خوبصورت ، عمدہ لباس والا تو اس کی ماں نے کہا اے اللہ ! تو میرے بیٹے کو اس جیسا بنادے تو بچے نے پستان چھوڑ دیا اور اس شخص کی طرف دیکھا اور کہا اے اللہ ! تو مجھے اس جیسا نہ بنانا، پھر دودھ پینے لگا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں گویا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ آپ (علیہ السلام) اپنے منہ میں شہادت والی انگلی ڈال کر اس کے دودھ پینے کو نقل کررہے ہیں، پھر اس کو چوسنے لگے۔ فرمایا اور لوگ ایک باندی کو مارتے ہوئے گزرے اور وہ کہتے تھے تونے زنا کیا اور تونے چوری کی اور وہ کہتی تھی ” حسبی اللہ ونعم الوکیل “ تو اس بچہ کی ماں نے کہا اے اللہ ! تو میرے بیٹے کو اس جیسا نہ بنانا تو بچے نے دودھ پینا چھوڑ دیا اور اس باندی کو دیکھا اور کہا اے اللہ ! تو مجھے اس جیسا بنادے۔ پس اس وقت ان دونوں نے بات میں مراجعت کی۔ پس اس نے کہا ایک شخص اچھی حالت ۔۔۔ تو میں نے کہا اے اللہ ! میرے بیٹے کو اس جیسا بنادے تو تو نے کہا اے اللہ ! مجھے اس جیسا نہ بنانا اور لوگ ایک باندی کو مارتے ہوئے اور زنا چوری کا الزام لگاتے گزرے تو میں نے کہا اے اللہ ! میرے بیٹے کو اس جیسا نہ بنانا تو تونے کہا : اے اللہ ! تو مجھے اس جیسا بنانا تو بچہ نے کہا بیشک وہ آدمی متکبر تھا تو میں نے کہا مجھے اس جیسا نہ بنانا اور وہ لوگ اس کو کہتے تھے تونے زنا کیا حالانکہ اس نے زنا نہ کیا تھا اور اس کو کہتے تھے تونے چوری کی حالانکہ اس نے چوری نہ کی تھی تو میں نے کہا اے اللہ ! مجھے اس جیسا بنادے۔
Top