Tafseer-e-Baghwi - Al-Hashr : 2
هُوَ الَّذِیْۤ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِیَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ١ؔؕ مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ یَّخْرُجُوْا وَ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ مَّانِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْا١ۗ وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَهُمْ بِاَیْدِیْهِمْ وَ اَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَ١ۗ فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ
هُوَ : وہی ہے الَّذِيْٓ : جس نے اَخْرَجَ : نکالا الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا مِنْ : سے، کے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مِنْ دِيَارِهِمْ : ان کے گھروں سے لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ڼ : پہلے اجتماع (لشکر) پر مَا ظَنَنْتُمْ : تمہیں گمان نہ تھا اَنْ يَّخْرُجُوْا : کہ وہ نکلیں گے وَظَنُّوْٓا : اور وہ خیال کرتے تھے اَنَّهُمْ : کہ وہ مَّانِعَتُهُمْ : انہیں بچالیں گے حُصُوْنُهُمْ : ان کے قلعے مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے فَاَتٰىهُمُ : تو ان پر آیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ حَيْثُ : جہاں سے لَمْ يَحْتَسِبُوْا ۤ : انہیں گمان نہ تھا وَقَذَفَ : اور اس نے ڈالا فِيْ قُلُوْبِهِمُ : ان کے دلوں میں الرُّعْبَ : رعب يُخْرِبُوْنَ : وہ برباد کرنے لگے بُيُوْتَهُمْ : اپنے گھر بِاَيْدِيْهِمْ : اپنے ہاتھوں سے وَاَيْدِي : اور ہاتھوں الْمُؤْمِنِيْنَ ۤ : مومنوں فَاعْتَبِرُوْا : تو تم عبرت پکڑو يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ : اے نگاہ والو
جو چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں زمین میں ہیں (سب) خدا کی تسبیح کرتی ہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے
تفسیر : (صحیحین) بخاری نے حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ سورة انفال بدر کے بیان میں نازل ہوئی اور سورت حشر بنی نضیر کے بیان میں۔ ” سبح للہ مافی السموات ومافی الارض وھوالعزیز الحکیم ۔ ھو الذی اخرج الذین کفروا من اھل الکتب من دیارھم لاول الحشر “ (اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں وہ سب چیزیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور وہی غالب (اور بڑی) حکمت والا ہے۔ وہی ہے جس نے ان کفار اہل کتاب (یعنی بنی نضیر) کو ان کے گھروں سے پہلی بار اکٹھا کرکے نکال دیا) ۔ ” من اھل الکتب “ یعنی خاندان بنی نضیر جو حضرت ہارون (علیہ السلام) کی نسل سے تھا۔ ” من دیارھم “ ان کے گھروں میں جو مدینہ میں تھے۔ ابن اسحق نے بیان کیا کہ بنی نضیر کی جلاوطنی کا واقعہ اس وقت ہوا جب رسول اللہ ﷺ احد سے واپس آئے تھے اور بنی قریظہ کا واقعہ جنگ احزاب سے واپسی کے وقت ہوا۔ ان دونوں واقعات کے درمیان دو سال کی مدت ہوئی۔ بنی نضیر کو جلاوطن کرنے کا سبب یہ ہوا کہ (ہجرت کے بعد) جب رسول اللہ ﷺ مدینہ میں تشریف لائے تو بنی نضیر سے یہ معاہدہ ہوگیا کہ فریقین میں سے کوئی کسی سے جنگ نہیں کرے گا اور بنی نضیر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوکر رسول اللہ ﷺ کے مخالفوں سے بھی نہیں لڑیں گے (اور نہ مسلمانوں کے خلاف رسول اللہ ﷺ کے دشمنوں کے ہمراہ ہوکر لڑیں گے) ۔ جب رسول اللہ ﷺ کو بدر کی لڑائی میں مشرکوں پر غلبہ حاصل ہوگیا تو بنی نضیر نے کہا : خدا کی قسم ! یہ وہی نبی ہیں جن کے اوصاف توریت میں ہم کو ملتے ہیں۔ ان کا جھنڈا (کبھی) نہیں لوٹایا جاسکتا۔ اس کے بعد جب جنگ احد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تو بنی نضیر رسول اللہ ﷺ کی صداقت میں شک کرنے لگے اور رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کی دشمنی پر علی الاعلان اتر آئے اور رسول اللہ ﷺ سے جو ان کا معاہدہ تھا اس کو توڑ دیا۔ چناچہ بنی نضیر کا ایک شخص کعب ابن اشرف چالیس یہودیوں کو لے کر پہنچا اور قریش سے ملا اور فریقین نے باہم مل کر ایک معاہدہ کیا کہ سب (قریش اور بنی نضیر) رسول اللہ ﷺ کی مخالفت پر متحد رہیں گے۔ ابوسفیان چالیس قریشیوں کو اور کعب بن اشرف چالیس یہودیوں کو لے کر کعبہ کے اندر داخل ہوئے اور ایک معاہدہ کعبہ کے پردوں کے اندر آپس میں کرلیا۔ توثیق معاہدہ کے بعد جب کعب اپنے ساتھیوں کو لے کر مدینہ واپس آگیا اور حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے فوراً رسول اللہ ﷺ کو اس معاہدہ کی اطلاع دی اور رسول اللہ ﷺ نے کعب بن اشرف کو قتل کرنے کا حکم دے دیا اور حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے جاکر کعب کو قتل کردیا۔ کعب کو قتل کرنے کی تفصیل سورة آل عمران کی آیت ” لتبلون فی اموالکم وانفسکم ولتسمعن من الذین اوتوا الکتب من قبلکم ومن الذین اشرکوا اذی کثیرا “ کی تفسیر کے ذیل میں ہم نے کردی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو بنی نضیر کی بدعہدی کی متعدد اطلاعیں ملی تھیں۔ بنی نضیر نے رسول اللہ ﷺ کو یہ پیام بھیجا کہ ہم آپ ﷺ کا کلام سننا اور آپ (ﷺ ) کا پیام سمجھنا چاہتے ہیں (اس لئے) آپ ﷺ اپنے تیس ساتھیوں کے ساتھ اور ہم اپنے تیس عالموں کے ساتھ نکل کر آجائیں اور درمیانی مقام پر سب جمع ہوجائیں اور ہمارے علماء آپ ﷺ کی باتیں سنیں، اگر وہ آپ ﷺ کی تصدیق کردیں گے اور آپ ﷺ پر ایمان لے آئیں گے تو ہم سب ایمان لے آئیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس گزارش کو مان لیا اور دوسرے روز تیس صحابہ کو ساتھ لے کر نکل کھڑے ہوئے۔ ادھر سے تیس یہودی عالم نکل آئے۔ جب دونوں فریق کھلے میدان میں پہنچ گئے تو بنی نضیر نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا محمد ( ﷺ ) تک تمہاری رسائی کیسے ہوگی ؟ ان کے ساتھ تو ان کے تیس رفیق جانثار موجود ہیں۔ جب ان کی تدبیر کامیاب نہیں ہوئی تو پیام بھیجا ہم (سب) ساٹھ آدمی ہیں (اس گڑ بڑ میں) آپ ﷺ کی بات کیسے سمجھ پائیں گے، اس لئے آپ ﷺ اپنے تین ساتھیوں کو لے کر آئیں، ہمارے بھی تین عالم آجائیں گے اور آپ ﷺ کی بات سنیں گے، اگر انہوں نے تصدیق کردی اور آپ ﷺ پر ایمان لے آئے تو ہم بھی مسلمان ہوجائیں گے۔ چنانچہ حضور ﷺ تین صحابہ ؓ کے ساتھ برآمد ہوئے اور ادھر سے تین یہودی بھی آگئے جن کے پاس خنجر تھے اور رسول اللہ ﷺ کو اچانک شہید کردینے کا ارادہ تھا لیکن بنی نضیر کی ہی ایک عورت تھی جس کا بھائی مسلمان ہوگیا تھا اور انصاری تھا۔ اس عورت نے بطور خیر خواہی اپنے بھائی کو کہلا بھیجا اور بنی نضیر کے ارادہ کی اطلاع دے دی۔ اس کا بھائی فوراً دوڑا اور قبل اس کے کہ رسول اللہ ﷺ یہودیوں تک پہنچتے، آپ ﷺ کو یہ مخفی طور پر اطلاع دے دی۔ آپ ﷺ فوراً مدینہ کی طرف لوٹ آئے۔ ابودائود، بیہقی، عبدبن حمید اور عبدالرزاق نے صحیح سند کے ساتھ یہ قصہ بیان کیا ہے اور ایک طویل حدیث کے ذیل میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ بنی نضیر نے یہ غداری اس وقت کی، جب واقعہ بدر کے بعد قریش نے ان کو لکھا تھا کہ تم لوگ مسلح زرہ پوش اور حفاظتی قلعوں والے ہو، تم کو چاہیے کہ ہمارے دشمن سے لڑائی لڑیں یا ایسا ایسا کریں۔ اس تحریر کو پانے کے بعد بنی نضیر نے مذکورہ بالا غداری کی۔ بغوی نے اس قصہ کو ذکر کرنے کے بعد بیان کیا ہے۔ جب دوسرا دن ہوا تو صبح ہی رسول اللہ ﷺ جنگی دستے لے کر ان کی طرف چل پڑے اور اکیس روز تک ان کا محاصرہ جاری رکھا۔ ھوالذی اخرج الذین کفروامن اھل الکتاب اس سے مراد بنی نضیر ہیں (من دیارھم) جو یثرب میں تھے۔ ان اسحاق کا بیان ہے کہ بنی نضیر کی جلاوطنی کا واقعہ جنگ احزاب سے واپسی کے وقت ہوا ان دونوں واقعات کے درمیان دو سال کی مدت ہوئی۔ اول حشر سے کیا مراد ہے (لاول الحشر) زہری کا بیان ہے کہ بنو نضیر اس سبط میں سے تھے جن کو کبھی جلاوطن نہیں کیا گیا۔ باوجودیکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جلاوطنی لکھ دی ہے اگر ان کو جلاوطن نہ کیا جاتا تو دنیا میں ہی ان پر عذاب آجاتا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا میدان حشر ملک شام میں ہوگا جس شخص کو اس آیت میں شکر ہو۔ وہ یہ آیت پڑھے ملک شام کی طرف یہ پہلا حشر ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا تھا تم لوگ نکل جائو۔ انہوں نے پوچھا کہاں جائیں فرمایا ارض محشر کی طرف قیامت کے دن سب مخلوق وجمع کرکے ارض شام کی طرف لایا جائے گا۔ اور کلبی (رح) فرماتے ہیں ” الاول الحشر “ کہا ہے اس لئے کہ وہ پہلے لوگ تھے جو اہل کتاب میں سے جزیرہ عرب سے جلاوطن کیے گئے، پھر ان کے آخری کو حضرت عمر بن خطاب ؓ نے جلاوطن کیا۔ مرہ ہمدانی (رح) فرماتے ہیں اول محشر مدینہ سے تھا اور حشر ثانی خیبر سے اور تمام جزیرہ عرب اذرعات تک اور اریحاء شام سے حضرت عمر ؓ کے دور قتادہ (رح) فرماتے ہیں یہ پہلا حشر تھا اور حشر ثانی آگ ہے جو ان کو مشر ق سے مغرب کی طرف جمع کرے گی، ان کے ساتھ رات گزارے گی جہاں وہ رات زاریں گے اور ان کے ساتھ دوپہر کا آرام کرے گی جہاں وہ آرام کریں گے۔۔۔۔۔ اے مومنو ! ”۔۔ ۔۔۔۔۔ “ مدینہ سے ان کے غلبہ اور قوت کی وجہ سے کیونکہ قلعوں، زمینوں اور کثیر باغات والے تھے۔ ” وظنوا انھم ما فجتھم حصونھم من اللہ “ یعنی اور بنونضیر نے گمان کیا کہ ان کے قلعے ان کو اللہ کی سلطنت سے روک لیں گے۔ ” فاقانعم اللہ “ یعنی اللہ کا امر اور اس کا عذاب “ من حیث لم یحتسبوا “ اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو حکم دیا ان سے قتال اور ان کو جلاوطن کرنے کا اور ان کو اس کا گمان نہ تھا۔ ” وقذف فی قلوبھم الرعب “ ان کے سردار کعب بن اشرف کو قتل کرکے۔ ” یوھوبون “ ابو عمرو نے تشدید کے ساتھ پڑھا ہے اور دیگر حضرات نے تخفیف کے ساتھ اور ان دونوں کا معنی ایک ہے۔ ” بیوتھم بایدیھم وایدی المومنین “۔ زہری (رح) فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے جب ان سے صلح کی کہ ان کے لئے وہ ہے جتنا اونٹ بوجھ اٹھالیں تو وہ اپنے گھروں میں لکڑیوں کو دیکھتے تو ان کو گرادیتے اور جو اچھی چیز ہوتی اس کو اتارلیتے اور اس کو اونٹوں پر لاد لیتے اور مومنین باقی کو خراب کردیتے۔ ابن زید (رح) فرماتے ہیں انہوں نے ستونوں کو اکھاڑ دیا اور چھتوں کو توڑ دیا اور دیواروں میں سوراخ کردیا اور لکڑیاں (کڑیاں) اکھاڑ دیں حتیٰ کہ میخیں نکال لیں۔ اس کو برباد کررہے تھے تاکہ اس میں مومن نہ رہ سکیں، مومنوں سے حسد اور بغض کی وجہ سے۔ قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ مسلمان ان کے ظاہر کو خراب کررہے تھے اور یہود اندر سے خراب کررہے تھے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں جب بھی مسلمان ان کے گھروں پر غالب ہوتے وہ ان کو گرادیتے تاکہ ان کے لئے لڑائی کی جگہ وسیع ہوجائے اور اللہ کے دشمن اپنے گھروں میں پیچھے سے نقب لگاتے اور اس سے پچھلے گھر میں نکل جاتے، پھر اس کو جائے پناہ لیتے اور جوان سے ملا ہوا ہے اس کو توڑ دیتے اور جس سے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ نکلتے اس پر تیراندازی کرتے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا قول ” یخربون بیوتھم بایدیھم وایدی المومنین فاعتبروا “ پس تم نصیحت حاصل کرو اور اس میں غورکرو جوان پر اتری ہے۔ ” فاعتبروا یا اولی الابصار “ اے عقل و سمجھ والو۔
Top