Tafseer-e-Baghwi - Al-An'aam : 76
فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ رَاٰ كَوْكَبًا١ۚ قَالَ هٰذَا رَبِّیْ١ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ
فَلَمَّا : پھر جب جَنَّ : اندھیرا کرلیا عَلَيْهِ : اس پر الَّيْلُ : رات رَاٰ : اس نے دیکھا كَوْكَبًا : ایک ستارہ قَالَ : اس نے کہا هٰذَا : یہ رَبِّيْ : میرا رب فَلَمَّآ : پھر جب اَفَلَ : غائب ہوگیا قَالَ : اس نے کہا لَآ : نہیں اُحِبُّ : میں دوست رکھتا الْاٰفِلِيْنَ : غائب ہونے والے
(یعنی) جب رات نے ان کو (پردہ تاریکی سے) ڈھانپ لیا تو (آسمان میں) ایک ستارا نظر پڑا۔ کہنے لگے یہ میرا پروردگار ہے۔ جب وہ غائب ہوگیا تو کہنے لگے کہ مجھے غائب ہوجانیوالے پسند نہیں۔
نمرود کا واقعہ (76) (فلما جن علیہ الیل راکو کبا) مفسرین رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی ولادت نمرود بن کنعان کے زمانہ میں ہوئی نمرود دنیا میں پہلا شخص ہے جس نے سر پر تاج رکھا اور لوگوں کو اپنی عبادت کی طرف بلایا اور اس کے کئی کاہن اور نجومی تھے۔ انہوں نے اس کو کہا کہ تیرے شہر میں اس سال ایک بچہ پیدا ہوگا جو زمین والوں کا دین تبدیل کر دے گا اور تیری اور تیری سلطنت کی ہلاکت ا سی کے ہاتھ سے ہوگی اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ بات پہلے انبیاء (علیہم السلام) کی کتابوں میں پائی تھی۔ سدی (رح) کہتے ہیں کہ نمرود نے خواب دیکھا کہ ایک ستارہ طلوع ہوا اور اس نے سورج اور چاند کی روشنی بالکل ختم کردی تو وہ اس خواب سے بہت زیادہ گھبرا گیا تو اس نے جادو گروں اور کاہنوں کو بلایا اور اس خواب کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے کہ ا کہ ایک بچہ اس سال تیرے ملک میں پیدا ہو اس کو ذبح کردیا جائے اور حکم دیا کہ مرد اپنی عورت کے قریب نہ جائیں اور ہر دس لوگوں پر ایک نگران مقرر کردیا ۔ جب عورت کو حیض آتا تو وہ نگران چلا جاتا کیونکہ وہ لوگ حالت حیض میں جماع نہ کرتے تھے۔ پھر جب عورت حیض سے پاک ہوتی تو وہ نگران اس عورت اور اس کے خاوند کے درمیان حائل ہوجاتا تو آزر آئے تو بیوی کو یدکھا کہ اس وقت حیض سے پاک ہوئی ہے تو اس سے جماع کیا جس سے ابراہیم (علیہ السلام) کی پیدائش ہوئی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیدائش کا واقعہ محمد بن اسحق کہتے ہیں کہ نمرود نے ہر حاملہ عوتر کو اپنے پاس قید کرا لیا لیکن ابراہیم (علیہ السلام) کی والدہ کو قید نہ کرا سکے کیونکہ ان کی عمر بہت چھوٹی تھی اور جسم سے حاملہ ہونا معلوم بھی نہ ہوتا تھا اور سدی (رح) کہتے ہیں کہ نمرود مردوں کو عورتوں سے الگ کرنے کے لئے تمام مردوں کا ایک لشکر بنا کر شہر سے باہر لے گیا کہ اگر شہر میں ہوں گے تو کہیں بچہ نہ پیدا ہوجائے۔ کچھ مدت بعد اس کو شہر میں کوئی ضروری کام پڑا۔ آزر کے سوا کوئی قابل اعتماد شخص نہ ملا تو ان کو کہا کہ میں ایک کام سے آپ کو شہر بھیجتا ہوں لیکن آپ اپنے گھر نہ جانا، انہوں نے کہا کہ میں اپنے دین کے باقی رہنے پر ا س سے زیادہ حریص ہوں، جب وہ شہر گئے اور نمرود کا کام کرلیا تو یعال کی خبر گری کے لئے گھر بھی گئے وہاں صبر نہ ہوسکا اور ان کی اہلیہ حاملہ ہوگئیں۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب ام ابراہیم (علیہ السلام) کو حمل ہوا تو نمرود کو کاہنوں نے کہا گزشتہ رات وہ بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں آگیا ہے تو اس نے بچوں کے قتل کا حکم دیا۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) کی ولادت قریب ہوئی تو ان کی والد ڈر کے مارے شہر سے دور ایک خشک گھاس میں گئیں اور وہاں ان کو جنم دیا اور ایک کپڑے میں لپیٹ کر ان کو وہیں گھاس پر رکھ آئیں اور واپس آ کر ولادت کی خبر اپنے خاوند کو دی اور جگہ بتادی تو آزر گئے اور اس نے وہاں جا کر بچہ کو لے کر ایک سرنگ کھود کر ابراہیم (علیہ السلام) کو اس میں رکھ کر اس سرنگ کے منہ پر پتھر رکھ دیا کہ کوئی درندہ نہ کھاجائے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی والدہ دن میں کئی دفعہ چکر لگا کر آپ (علیہ السلام) کو دودھ پلا جاتی تھیں۔ ابو روق کہتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی والدہ نے ایک دن ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھا کہ ایک انگلی سے پانی ایک سے شہد ایک سے کھجور اور ایک سے دودھ اور ایک سے گھی چاٹ رہے ہیں۔ محمد بن اسحق کہتے ہیں کہ آزر نے ام ابراہیم سے حمل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا بچہ پیدا ہوا تھا وہ مرگیا اور ابراہیم (علیہ السلام) کا جسم ایک ماہ میں ایک سال جتنا بڑھ رہا تھا۔ صرف پندرہ ماہ آپ (علیہ السلام) غار میں رہے اور والدہ کو کہا اب مجھے باہر نکال دیں، انہوں نے نکالا تو آپ (علیہ السلام) نے آسمانوں اور زمین میں غور و فکر کیا اور کہا کہ بیشک جس نے مجھے پیدا کیا اور رزق دیا، کھلایا اور پلایا وہی میرا رب ہے۔ اس کے سوا میرا کوئی معبود نہیں۔ پھر آسمان کی طرف دیکھ اور ستارے دیکھے تو کہا یہ میرا رب ہے پھر اس کو دیکھتے رہے جب وہ چھپ گیا تو کہا میں غائب ہوجانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پھر سورج طلوع ہوا تو یہی کہا۔ پھر اپنے والد کے پاس گئے اور آپ کو استقامت حاصل ہوچکی تھی اور اپنے رب کو پہچان چکے تھے اور اپنی قوم کے دین سے برأت ظاہر کرچکے تھے لیکن ان کو اس کی اطلاع نہیں دی اور والد کو خبر دی کہ میں آپ کا بیٹا ہوں اور ماں نے بھی تصدیق کی اور کس طرح پرورش کی ہے وہ بھی بتایا تو آزر اس سے بہت خوش ہوئے۔ بعض نے کہا کہ غار میں سات سال رہے اور بعض نے تیرہ سال اور بعض نے سترہ سال۔ مفسرین رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) جوان ہوئے اور وہ ابھی اس گڑھے میں تھے تو اپنی والدہ سے پوچھا میرا رب کون ہے ؟ انہوں نے کہا میں۔ آپ (علیہ السلام) نے پوچھا آپ کا رب کون ہے ؟ انہوں نے کہا تیرا والد آزر۔ آپ (علیہ السلام) نے پوچھا میرے والد کا رب کون ہے ؟ انہوں نے کہا نمرود۔ پھر پوچھا نمرود کا رب کون ہے ؟ تو والدہ نے کہا خاموش ہوجا۔ آپ (علیہ السلام) خاموش ہوگئے تو والدہ نے جا کر اپنے خاوند کو کہا کہ میرا خیال ہے کہ جس لڑکے نے زمین والوں کے دین کو تبدیل کرنا ہے وہ آپ کا بیٹا ہے اور ساری بات ان کو بتادی تو آزر ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے اور ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے بھی وہی سوال و جواب کئے۔ اس کے بعد کہا کہ مجھے اس گڑھے سے نکالیں تو وہ ان کو نکال کر غروب شمس کے بعد اپنے ساتھ لے گئے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے اونٹ، گھوڑے، بکریوں کو دیکھا تو ان کے بارے میں پوچھا کہ یہ کیا ہیں ؟ والد نے بتایا تو آپ (علیہ السلام) کہنے لگے کہ ان کا بھی خالق اور رب ضرور ہوگا۔ پھر دیکھا تو مشتری ستارہ طلوع ہوچکا تھا اور بعض نے کہا زہرہ۔ یہ رات مہینے کی آخری راتوں میں سے تھی اس لئے چاند دیر سے طلوع ہوا اور ابراہیم (علیہ السلام) نے چاند سے پہلے ستاروں کو دیکھ کر یہ کلام کی (فلما جن علیہ الیل) یعنی رات داخل ہوئی۔ کہا جاتا ہے ” جن اللیل واجن اللیل وجنۃ اللیل واجن علیہ اللیل بجن جنونا وجنانا “ جب رات تاریک ہو اور ہر چیز کو ڈھانپ لے اور جنون اللیل رات کی تاریکی۔ (رأی کوکبا) ابو عمرو نے (رأی) راء کے زبر اور الف کے زیر کے ساتھ پڑھا ہے اور ابن عامر، حمزہ، کسائیا ور ابوبکر رحمہما اللہ نے دونوں کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے۔ اگر کاف یاھاء کے ساتھ متصل ہو تو ان دونوں کو ابن عامر (رح) زیر دیتے ہیں اور اگر ان کو ساکن ملا ہوا ہو تو راہ کو زیر اور ہمزہ کو زبر دیتے ہیں اور دیگر حضرات ان دونوں کو زبر دیتے ہیں۔ (قال ھذا ربی) اس قول سے ابراہیم (علیہ السلام) کی کیا مراد تھی۔ اس میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ بعض نے اس کو ظاہری معنی پر جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) میں وقت تک رہنمائی طلب کر رہے تھے اور توحید کے طالب تھے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے دن کو توفیق دی اور ان کو راہ دکھائی تو اس قول نے ان کو نقصا نہیں دیا اور ویسے بھی یہ بات انہوں نے بچپن کے زمانہ میں کہی تھی۔ اس وقت وہ مکلف نہ تھے اس لئے یہ قول کفر نہیں ہے اور دیگر مفسرین رحمہما اللہ نے اس قول کا انکار کیا ہے اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس کو رسول بنانا ہوتا ہے وہ ہر وقت اللہ کی توحید کا قائل اور اللہ کو پہچاننے والا وہتا ہے اور اللہ کے علاوہ ہر معبود سے بری ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ابنیاء (علیہم السلام) پر ایسے کفر یہ قول کا وہم بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے ان باتوں سے محفوظ کیا ہے اور ان کو پاک کیا اور پہلے سے سمجھ دی اور ان کے بارے میں خبر دی۔ (اذ جاء ربہ بقلب سلیم) اور فرمایا (وکذلک نری ابراہیم ملکوت السماوات والارض) تیرا کیا خیال ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو سلطنتیں دکھائیں تاکہ ان کو یقین حاصل ہوجائے اور جب ان کو یقین حاصل ہوا تو ستارے کو دیکھ کر کہا یہ میرا رب ہے اس کو عقیدہ بنا لیا ؟ یہ ایسی بات ہے جو کبھی نہیں ہوسکتی، پھر اس کے کئی تاویلات کی گئی۔ ایک یہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اس قول سے یہ ارادہ کیا کہ قوم کو ڈھیل دیں تاکہ ان کی غلطی ان پر واضح ہوجائے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ تمام امور ان ستاروں کے سپرد ہیں تو ان کو یہ خیال دلایا کہ ابراہیمع لیہ السلام بھی ان چیزوں کی تعظیم کرتے ہیں جن کی وہ تعظیم کرتے ہیں اور اسی سے ہدیات تلاش کرتے ہیں جس سے وہ تلاش کرتے ہیں۔ جب وہ ستارہ غروب ہوگیا تو ان کو ستاروں کا نقص وعیب دکھایا تاکہ ان کے دعویٰ کی خطاء واضح ہوجائے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے حواری بتوں کی عبادت کرنے والی قوم پر آیا تو ان کی تعظیم ظاہر کی توبت پرستوں نے اس کا اکرام کیا اور کئی معاملات میں اس کی تصدیق کی۔ یہاں تک کہ ایک دن دشمن نے حملہ کیا تو لوگ حواری سے مشورہ کرنے آئے تو اس نے کہا میری رائے یہ ہے کہ تم اس بات سے مدد مانگو یہ ہماری مدد کرے گا تو وہ اس کے اردگرد جمع ہو کر آہ وزاری کرنے لگے۔ جب یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ تو نفع نقصان نہیں دیتے تو ان کو دعوت دی کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں تو انہوں نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے دشمن کا خوف دور کردیا تو وہ سب اسلام لے آئے، کہ تم ان ستاروں کی تعظیم کرتے ہو اور عبادت کرتے ہوئے حالانکہ میں تو عیب موجود ہے تو یہ کیسے معبود ہوسکتے ہیں ؟ (2) تاویل یہ ہے کہ یہ قول استفہام تھا کہ کیا یہ میرا رب ہے ؟ اور یہ استفہام ڈانٹ کے لئے ہے کہ کیا اس جیسی چیز رب ہوسکتی ہے ؟ جیسے باری تعالیٰ کا قول (افائن مت فھم الخالدون) ہے یعنی کیا وہ ہمیشہ رہیں گے ؟ اور اس کو ڈانٹ کے طور پر ذکر کیا ہے ان کے فعل کا انکار کرنے کے لئے۔ یعنی کیا اس جیسی چیز اب ہوسکتی ہے۔ یعنی یہ میرا رب نہیں ہے۔ (3) تاویل ان پر استدلال قائم کرنا ہے۔ فرمایا یہ میرا رب ہے تمہارے گمان کے مطابق۔ جب وہ غائب ہوگیا تو فرمایا اگر یہ معبود ہوتا تو غائب نہیں ہوتا۔ جیسا کہ فرمایا (ذق انک انت العزیز الکریم) یعنی تیرے نزدیک اور تیرے گمان میں اور جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں خبر دی ہے کہ انہوں نے کہا (وانظر الی الھک الذی ظلت علیہ عافکا لنحرقنہ) مراد تیرا معبود ہے تیرے گمان کے مطابق۔ (4) تاویل وجہ اس میں عبارت مقدر ہے۔ اصل عبارت وہ کہتے ہیں یہ میرا رب ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت و اسماعیل ربنا تقبل منا) یعنی وہ کہتے ہیں (ربنا تقبل منا) (فلما افل قال لا احب الافلین) اور جن میں دوام نہ ہو۔
Top