Tafseer-e-Baghwi - Al-Qalam : 52
وَ مَا هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
وَمَا هُوَ : اور نہیں ہے وہ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ : مگر ایک نصیحت جہانوں کے لیے
اور کافر جب (یہ) نصیحت (کی کتاب) سنتے ہیں تو یوں لگتے ہیں کہ تم کو اپنی نگاہوں سے پھسلا دیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے
آیت وان یکادالذین کفروا لیز لقونک کی تفسیر 51 ۔” وان یکاد الذین کفروا لیز لقونک بابصارھم “ کفار نے ارادہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو نظر کے ذریعے تکلیف پہنچائیں تو آپ (علیہ السلام) کی طرف قریش کی ایک جماعت نے نظر کی اور کہنے لگے ہم نے اس کی مثل نہیں دیکھا اور دلیل میں غالب آنے والا کہا گیا ہے کہ بنواسد کی نگاہ بہت لگتی تھی حتیٰ کہ اونٹنی اور موٹی گائے ان میں سے کسی کے سامنے سے گزرتی تو وہ اس کو دیکھتا، پھر کہتا اے لونڈی تو برتن اور دراہم لے اور ہمارے پاس اس کا کچھ گوشت لے آئے تو وہ ٹھہرتی حتیٰ کہ موت واقع ہوجاتی ، پھر نحر کی جاتی اور کلبی (رح) فرماتے ہیں عرب کا ایک شخص دو یا تین دن کچھ نہ کھاتا پھر اپنے خیمہ کی طرف اٹھاتا ، پھر اس کے سامنے سے اونٹ گزرتا تو وہ کہتا میں نے آج کے دن کی طرح کوئی اونٹ اور بکری اس سے اچھی نہیں دیکھی۔ پس وہ تھوڑا سا آگے جاتی حتیٰ کہ اس کا کچھ حصہ گر جاتا تو کفار نے اس سے سوال کیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو نظر لگائے اور آپ (علیہ السلام) کے ساتھ ایسا کرے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (علیہ السلام) کو بچایا اور اتارا ” وان یکاد الذین کفروا لیز لقونک بابصارھم “ یعنی اور قریب ہے اور لام ” لیزلقونک “ میں ان کی جگہ داخل ہوا ہے اور اہل مدینہ نے ” لیزلقونک “ یاء کے زبر کے ساتھ پڑھا ہے اور دیگر حضرات نے اس کے پیش کے ساتھ اور یہ دو لغتیں ہیں۔ کہا جاتا ہے ” زلقہ یزلقہ زلقا وازلقہ یزلقہ ازلاقا “ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس کا معنی وہ آپ سے پار کردیں گے۔ کہا جاتا ہے ” زلق اسھم “ جب وہ جس سے پار ہوجائے۔ سدی (رح) فرماتے ہیں وہ آپ کو اپنی آنکھوں سے تکلیف پہنچاتے۔ نضیر بن شمیل (رح) فرماتی ہیں ” یعینونک “ اور کہا گیا ہے وہ آپ کو پھسلا دیتے۔ کلبی (رح) فرماتے ہیں آپ کو پچھاڑ دیتے اور کہا گیا ہے آپ (علیہ السلام) کو پھیر دیتے اس سے جس پر آپ (علیہ السلام) ہیں رسالت کی تبلیغ وغیرہ سے۔ ابن قتیبہ (رح) فرماتے ہیں یہ مراد نہیں ہے کہ وہ آپ (علیہ السلام) کو اپنی آنکھوں کے ذریعے تکلیف پہنچائیں گے جیسا کہ نظر لگانے والا اپنی آنکھ سے اچھی لگنے والی چیز کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ یہاں تو یہ مراد ہے کہ وہ آپ (علیہ السلام) کو جب آپ (علیہ السلام) قرآن پڑھتے ہیں دشمنی اور بغض کی وجہ سے سخت نظروں سے دیکھتے ہیں۔ قریب ہے کہ آپ کو گرادیں۔ اور زجاج (رح) فرماتے ہیں یعنی وہ اپنی سخت دشمنی کی وجہ سے بغض کی نگاہ کرتے ہیں۔ قریب ہے کہ وہ آپ (علیہ السلام) کو پچھاڑ دیتے۔ یہ کلام میں مستعمل ہے کہنے والا کہتا ہے ۔ ” نظر الی نظر ایکاد “ پھر ” عنی ونظر ایکاد یا کلنی “ ایسی نظر کی یہ مجھے پچھاڑنے کے قریب تھا اور مجھے کھانے کے قریب تھا۔ اس معنی کی صحت پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اس نظر کو قرآن کے سننے کے ساتھ ملایا گیا ہے اور وہ باری تعالیٰ کا قول ” لما سمعوا الذکر “ ہے اور وہ لوگ اس کو سخت ناپسند کرتے تھے تو آپ (علیہ السلام) کی طرف بغض کی تیز نگاہ ڈالتے تھے۔ ” ویقولون انہ لمجنون “ یعنی آپ (علیہ السلام) کی جنون کی طرف نسبت کرتے ہیں جب آپ (علیہ السلام) کو قرآن پڑھتے سنتے ہیں۔
Top