Tafseer-e-Baghwi - Al-A'raaf : 152
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ ذِلَّةٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اتَّخَذُوا : انہوں نے بنالیا الْعِجْلَ : بچھڑا سَيَنَالُهُمْ : عنقریب انہیں پہنچے گا غَضَبٌ : غضب مِّنْ رَّبِّهِمْ : ان کے رب کا وَذِلَّةٌ : اور ذلت فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نَجْزِي : ہم سزا دیتے ہیں الْمُفْتَرِيْنَ : بہتان باندھنے والے
(خدا نے فرمایا کہ) جن لوگوں نے بچھڑے کو (معبود) بنا لیا تھا ان پر پروردگار کا غضب واقع ہوگا اور دنیا کی زندگی میں ذلت (نصیب ہوگی) اور ہم افتراء پردازوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔
152(ان الذین اتخذوا العجل ) جنہوں نے اس کو اپنا معبود بنایا (سینا لھم غضب من ربھم) آخرت میں (وذلۃ فی الحیوۃ الدنیا) ابو اعالیہ فرماتے ہیں کہ جو ان ک واپنے آپ کو مارنے کا حکم دیا گیا وہ مراد ہے۔ عطیہ عوفی (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت سے نبی کریم ﷺ کے زمانے کے یہود مراد ہیں ان کو ان کے آباء کے کاموں سے عار دلائی جا رہی ہے اور غضب اور ذلت سے مراد جو بنو قریظہ اور بنو نضیر کو قتل اور جلا وطنی پیش آئی وہ مراد ہے اور ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ذلت سے جزیہ مراد ہے (وکذلک نجزی المفترین) ابو قلابہ (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قسم قیامت تک ہر جھوٹ بولنے والے کی سزا یہی ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ ذلیل کریں گے۔ سفیان بن عینیہ (رح) فرماتے ہیں کہ ہر بدعت ایجاد کرنے والے کی قیامت تک یہی سزا ہے۔
Top