Tafseer-e-Baghwi - Al-A'raaf : 180
وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا١۪ وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآئِهٖ١ؕ سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے الْاَسْمَآءُ : نام (جمع) الْحُسْنٰى : اچھے فَادْعُوْهُ : پس اس کو پکارو بِهَا : ان سے وَذَرُوا : اور چھوڑ دو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُلْحِدُوْنَ : کج روی کرتے ہیں فِيْٓ اَسْمَآئِهٖ : اس کے نام سَيُجْزَوْنَ : عنقریب وہ بدلہ پائیں گے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
اور خدا کے سب نام اچھے ہی ہیں تو اس کو اس کے ناموں سے پکار کرو۔ اور جو لوگ اس کے ناموں میں کجی (اختیار) کرتے ہیں ان کو چھوڑ دو ۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں عنقریب اسکی سزا پائیں گے۔
180(وللہ الاسمآء الحسنی فادعوہ بھا) مقاتل (رح) فرماتے ہیں کہ ایک صحابی نے دعا میں رحمٰن کو پکارا تو مکہ کے بعض مشرکین کہنے لگے کہ محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ وہ ایک رب کو بلاتے ہیں تو یہ دو کو کیوں بلا رہا ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ” وللہ الاسماء الحسنیٰ فادعوہ بھا “ حسنیٰ احسن کی مئونث ہے جیسے کبریٰ اور صغریٰ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں سو سے ایک کم جوان کو یاد کرلے وہ جنت میں داخل ہوگا بیشک اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق عدد کو پسند کرتا ہے (وذروا الذین یلحدون فی اسمآئہ ) حمزہ (رح) نے ” یحلدون “ یاء اور رحاء کے زبر کے ساتھ پڑھا ہے جہاں بھی ہو۔ کسائی (رح) نے النحل میں اس کی موافقت کی ہے اور باقی حضرات نے یاء کے پیش اور حاء کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے اور الحاد کا معنی سیدھے راستے سے اعراض کرنا۔ کہا جاتا ہے ” الحد یلحد الحاداً ولحد یلحد لحوداً “ جب وہ مائل ہوجائے۔ یعقوب سکیت (رح) فرماتے ہیں۔ الحاد حق سے اغراض کرنا اور حق میں وہ چیز داخل کرنا جو اس میں نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے ” الحد فی الدین والحد بہ “ حمزہ (رح) نے بھی اسی طرح پڑھا ہے۔ (سیجزون ماکانوا یعملون) ملحدین سے مراد مشرکین مکہ ہیں کہ انہوں نے اللہ کے نام تبدیل کئے کہ ان ناموں کو بتوں کو دے دیا اور اللہ تعالیٰ کے ناموں میں کچھ حرف کم کردیئے۔ مثلا لات کو اللہ سے ” عزی “ کو عزیز سے ” مناۃ “ کو منان سے مشتق کیا۔ یہ ابن عباس ؓ اور مجاہد (رح) کا قول ہے۔ بعض نے کہا کہ ا ن کا الحاد بتوں کو معبود کا نام دینا تھا۔ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ” یلحدون فی اسمائہ “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔ اہل معانی رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے اسماء میں الحادیہ ہے کہ اللہ کو ایسا نام دینا جو نہ کتاب اللہ میں ہے اور نہ سنت رسول اللہ ﷺ میں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء توقیفی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود کو جواد کہا ہے سخی نہیں کہا۔ اگرچہ معنی ایک ہے اور رحیم نام لیا ہے رفیق نہیں اور عالم نام رکھا ہے عاقل نہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” یخادعون اللہ وھو خادعھم “ اور فرمایا ” ومکروا و مکر اللہ “ اور دعا میں ” یا مخادع “ اور یا مکار نہیں کہا جاسکتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے ان اسماء سے دعا کی جاتی ہے جو تعظیم کے طور پر منقول ہیں۔ پس یوں کہا جاتا ہے یا اللہ ! یا رحمٰن ! یا رحیم ! یا عزیز ! یا کریم ! وغیرہ۔” سیجزون ما کانوا یعملون “ آخرت میں۔
Top