Tafseer-e-Baghwi - Al-A'raaf : 204
وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قُرِئَ : پڑھا جائے الْقُرْاٰنُ : قرآن فَاسْتَمِعُوْا : تو سنو لَهٗ : اس کے لیے وَاَنْصِتُوْا : اور چپ رہو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
204 (واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون) اس آیت کے سبب نزول میں اختلاف ہے۔ ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ یہ آیت نماز میں قرأت کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ آیت کا شان نزول حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام ؓ نماز میں اپنی ضروریات کی گفتگو کرلیتے تھے۔ پھر ان کو خاموش رہنے اور قرآن کی قرأت کو توجہ سے سننے کا حکم دیا گیا اور ایک قوم نے کہا ہے کہ یہ آیت امام کے پیچھے اونچی آواز سے قرأت چھوڑنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ؓ نے فرمایا کہ یہ آیت رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز میں آوازوں کو بلند کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ کلبی (رح) فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام ؓ نماز میں جب جنت اور جہنم کی آیات سنتے تو آوازوں کو بلند کرتے۔ ابن مسعود ؓ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے چند لوگوں کو سنا کہ وہ امام کے ساتھ قرأت کرتے ہیں جب نماز ختم ہوئی تو فرمایا، کیا تمہارے سمجھنے کا وقت نہیں آیا کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو کان لگا کر سنو اور خاموش رہو۔ جیسا کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور یہ حسن اور زہری اور نخعی رحمہما اللہ کا قول ہے کہ یہ آیت نماز میں قرأت کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ سعید بن جبیر ؓ عطاء اور مجاہد رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت خطبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ امام کے جمعہ کے دن خاموش ہونے کے بارے میں ہے اور جن نمازوں میں امام جہر کرتا ہے اور عمر بن عبدالعزیز (رح) فرماتے ہیں ہر واعظ کے قول کے لئے خاموش ہونا مراد ہے اور پہلا قول ان سب میں بہتر ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ آیت نماز میں قرأت کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس لئے کہ آیت مکی ہے اور جمعہ مدینہ میں واجب ہوا ہے اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ امام کے خطبہ کے لئے خاموش ہونے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تو اپنے ساتھی کو امام کے خطبہ کے دوران کہے خاموش ہوجا تو تو نے لغو کا کام کیا اور اہل علم کا اختلاف ہے کہ امام کے پیچھے نماز میں قرأت کا کیا حکم ہے ؟ ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ واجب ہے امام جہراً قرأت کر رہا ہو یا ” سرا “ یہی بات حضرت عمر، عثمان، علی، ابن عباس ؓ اور معاذ ؓ سے مروی ہے اور یہ ہی امام اوزاعی اور امام شافعی رحمہم اللہ کا قول ہے بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ جن نمازں میں امام آہستہ قرأت کرے ان میں مقتدی بھی قرأت کرے اور جن میں امام جہراً قرأت کرے ان میں نہ کرے یہ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے اور یہی عروہ بن زبیر ؓ اور قاسم بن محم (رح) کا قول ہے اور امام زہری، امام مالک، ابن مبارک، امام احمد اور اسحاق رحمہما اللہ اسی کے قائل ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ مقتدی بالکل قرأت نہ کرے، خود امام سراً قرأت کر رہا ہو یا جہراً یہ حضرت جابر ؓ سے مروی ہے اور اسی کے سفیان ثوری (رح) اور اصحاب رائے قائل ہیں۔ جو حضرات امام کے پیچھے قرأت کو جائز نہیں سمجھتے وہ اس آیت کے ظاہر سے استدلال کرتے ہیں اور جن ہوں نے قرأت کو واجب کہا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ آیت فاتحہ کے علاوہ قرآن کے بارے میں ہے اور مقتدی جب فاتحہ پڑھے تو امام کے سکتوں کی اتباع کرے یعنی امام جب خاموش ہو تو وہ کچھ فاتحہ پڑھ لے اور قرأت میں امام سے جھگڑا نہ کرے۔ اس پر دلیل عبادہ بن صامت ؓ کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی تو آپ پر قرأت بوجھل ہوگئی جب نماز ختم ہوئی تو آپ ؓ کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی تو آپ پر قرأت بوجھل ہوگئی جب نماز ختم ہوئی تو آپ ؓ کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی تو آپ پر قرأت بوجھل ہوگئی جب نماز ختم ہوئی تو آپ ؓ کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی تو آپ پر قرأت بوجھل ہوگئی جب نماز ختم ہوئی تو آپ ؓ کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی تو آپ پر قرأت بوجھل ہوگئی جب نماز ختم ہوئی تو آپ ؓ کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی تو آپ پر قرأت بوجھل ہوگئی جب نماز ختم ہوئی تو آپ ؓ کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی تو آپ پر قرأت بوجھل ہوگئی جب نماز ختم ہوئی تو آپ ؓ کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی تو آپ پر قرأت بوجھل ہوگئی جب نماز ختم ہوئی تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا میرا خیال ہے کہ تم امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو ؟ تو ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! (ﷺ) جی اللہ کی قسم ! تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو مگر ام القرآن کیونکہ جو اس کو نہ پڑھے تو اس کی نماز ہی نہیں ہے۔
Top