Tafseer-e-Baghwi - Al-A'raaf : 72
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ قَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ مَا كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
فَاَنْجَيْنٰهُ : تو ہم نے اسے نجات دی (بچا لیا) وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو مَعَهٗ : اس کے ساتھ بِرَحْمَةٍ : رحمت سے مِّنَّا : اپنی وَقَطَعْنَا : اور ہم نے کاٹ دی دَابِرَ : جڑ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات وَمَا : اور نہ كَانُوْا : تھے مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
پھر ہم نے ہود کو اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے انکو نجات دی اور جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا ان کی جڑ کاٹ دی۔ اور وہ ایمان لانے والے تھے ہی نہیں۔
(72) فانجینہ) ہم نے ھود (علیہ السلام) کو عذاب کے وقت نجات دی (والذین معہ برحمۃ منا و قطعنا دابر الذین کذبوا بایتناً ) یعنی ہم ان کو جڑوں سے اکھڑا پھینک دیں گے اور ان کو ہلاک کردیں گے (وما کانوا مئومنین) عاد کا واقعہ محمد بن اسحاق اور دیگر نے ذکر کیا ہے کہ یہ لوگ یمن میں رہتے تھے ان کی رہائش احقاف پر تھی یہ عمان اور حضر موت کے دریمان ریت کے ٹیلے ہیں۔ یہ ساری زمین میں پھیلے اور اپنی طاقت سے زمین والوں کو مغلوب کردیا۔ یہ بتوں کی عبادت کرنے تھے۔ ایک بت کو صداء ایک کو صمود اور ایک کو ھباء کہا جاتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ھود (علیہ السلام) ک نبی بنا کر بھیجا۔ یہ ان میں درمیانے نسب والے اور اعلیٰ حسب والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے توحید کا حکم دیا اور لوگوں پر ظلم کرنے سے روکا۔ اس کے علاوہ کوئی حکم نہیں دیا تو انہوں نے جھٹلایا اور کہنے لگے ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان سے تین سال تک بارش کو روک لیا جس کی وجہ سے بہت مشقت میں پڑگئے۔ اس زمانہ میں لوگ عمومی مصیبت کے وقت مکہ میں بیت اللہ کے پاس جا کر دعا مانگتے تھے خواہ مئومن ہوں یا مشرک تو مکہ میں بہت سے لوگ مختلف ادیان کے جمع ہوگئے اور سب مکہ کی تعظیم کرتے تھے۔ اس وقت میں عمالقہ قوم آباد تھی۔ ان کی نسل عملیق بن لاذ ابن سام بن نوح (علیہ السلام) سے چلی تھی۔ اس زمانہ میں مہ کا سردار عمالقہ قوم کا شخص معاویہ بن بکر تھا اس کی والدہ کلہدۃ تھی جو خیبری کی بیٹی تھی یہ خیبری قوم کا ایک شخص تھا تو جب قحط پڑا تو قوم عاد کہنے لگی کہ اپنا ایک وفد مکہ بھیجو جو تمہارے لئے بارش کی دعا مانگے تو انہوں نے قیل بن عنزہ اور نعیم بن ھزال ، عقیل بن صندین بن عادالاکبر، مرثدبن سعد بن عفیر کو یہ مرثد مسلمان تھے لیکن اسلام کو چھپاتے تھے۔ ” جلھمہ “ بنت خیبری معاویہ بن بکر کے ماموں کو بھیجا تو ہر آدمی کے ساتھ اس کی قوم کی ایک جماعت تھی یہاں تک کہ ان کے وفد کی تعداد ستر کو پہنچ گئی۔ جب مکہ آئے تو معاویہ بن بکر کے مہمان ہوئے۔ یہ مکہ میں حرم سے باہر رہتا تھا تو ان کی خوب مہمان نازی کی کیونکہ یہ اس کے ماموں اور داماد وغریہ تھے تو یہ ایک مہینہ وہاں رہے شراب پیتے اور معاویہ کی دو لونڈیاں ان کو گانا سناتیں۔ ان کو آتے ہوئے ایک مہینہ لگ گیا اور واں ایک مہینہ قیام کیا جب معاویہ نے ان کے لمبے قیام کو دیکھا اور یہ دیکھا کہ قوم نے ان کو مشکل سے نکلنے کی فریاد کرنے کے لئے بھیجا تھا اور یہ یہاں مزے کر رہے ہیں تو ان کو یہ بات ناگوار گزری اور کہا میرے ماموں اور رشتہ دار وہاں مر رہے ہیں اور یہ یہاں میرے مہمان بنے بیٹھے ہیں۔ اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کروں، اگر جانے کا کہتا ہوں تو یہ ناراض ہوں گے کہ یہ ہمیں بوجھ سمجھتا ہے اور اگر کچھ نہیں کہتا تو میری قوم ہلاک ہوتی ہے تو انہوں نے گانے والی لونڈیوں کو چند اشعار لکھ کردیئے کہ یہ ان کے سامنے گائو۔ اے۔ قیل اور ہیثم اٹھ شاید اللہ بارش سے ہم کو سیراب فرما دے جس سے قوم عاد سیراب ہو ان لوگوں کی تو ایسی حالت ہوگئی کہ سخت پیاس کی وجہ سیبات بھی نہیں کرسکتے نہ بوڑھے کی امید ہے نہ بچے کی۔ پہلی عوتریں عافیت سے تھیں مگر اب عورتیں بھی سخت پیاسی ہوگئیں۔ قوم عاد کو کھانے کے لئے علی الاعلان درندے گشت کر رہے ہیں اور کسی عاد والے کے تیروں کا ان کو اندیشہ نہیں اور تم لوگ یہاں مزے میں سارے دن رات گزار رہے ہو اے وفد والو تمہارا برا ہو تم کو سلامتی اور خوش آمدید نصیب نہ ہو۔ جب انہوں نے گائے تو یہ آپ س میں کہنے لگے کہ ہماری قوم نے ہمیں اس مصیبت پر فریاد کرنے کے لئے بھیجا تھا ہم نے دیر کردی ہے تو اب حرم میں داخل ہو کر اپنی قوم کے لئے بارش طلب کرتے ہیں تو مرثد بن سعد بن عفیر جو کہ خفیہ ایمان لا چکے تھے انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم تمہاری دعا سے بارش نہ ہوگی۔ لیکن اگر تم اپنے نبی کی اطاعت کرلو اور اپنے رب سے توبہ کرلو تو بارش ہوگی، اب انہوں نے اپنا اسلام ظاہر کردیا اور چند اشعار کہے۔ عاد نے اپنے پیغمبر کی نافرمانی کی جس کی وجہ سے پا سے ہوگئے آسمان پر ایک قطرہ نہیں برساتا ان کا ایک بت ہے جس کو صمود کہا جاتا ہے اور اس کے سامنے صدا اور ہبا بھی ہیں۔ اللہ نے رسول کے ذریعے سے ہم کو راہ ہدایت دکھائی۔ مہ نے سیدھا راستہ دیکھ لیا اور نابینائی جاتی رہی جو معبود ہود کا ہے وہی میرا معبود ہے۔ اللہ ہی پر بھروسہ ہے اور اسی سے آس ہے۔ تو وہ لوگ معاویہ بن بکر کو کہنے لگے اس کو ہم سے روک دو یہ ہمارے ساتھ مکہ نہ جائے کیونکہ اس نے ہمارا دین چھوڑ کر ھود (علیہ السلام) کے دین کی اتباع کی ہے تو ان کے مکہ کی طرف جانے کے بعد مرثد بھی مکہ پہنچ گئے اور دعا مانگی کہ اے اللہ ! میری دعا صرف میرے حق میں قبول کرنا ان لوگوں کے حق میں قبول نہ کرنا اور قوم عاد کا وفد اپنے سردار قیل بن عنز کے ساتھ دعا کر رہا تھا کہ اے اللہ ! ہمارے وفد کا سردار جو کچھ مانگ رہا ہے وہ ہمیں بھی دے اور قیل بن عنز نے یہ دعا کی کہ اے اللہ ! اگر ھود (علیہ السلام) سچے ہیں تو ہم پر بارش برسا کیونکہ ہم ہلاک ہو رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے تین بادل پیدا کئے سفید اور سرخ اور سیاہ اور قیل کو آواز آئی ان میں سے ایک کو اپنی قوم کے لئے چن لے۔ قیل نے کہا میں سیاہ کو چنتا ہوں کیونکہ اس میں پانی زیادہ ہوتا ہے تو آواز آئی تو نے اپنی قوم کے لئے راکھ کو چنا ہے ان میں سے کوئی نہ بچے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان سیاہ بادلوں کو قوم عاد کو سزا دینے کے لئے بھیج دیا۔ جب وہ بادل قوم عاد پر پہنچے تو وہ خوش ہوگئے اور کہنے لگے یہ بادل ہم پر برسے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ وہ عذاب ہے جس کو تم جلدی طلبک رتے تھے۔ اس عذاب کو سب سے پہلے قوم عاد کی ایک عورت نے دیکھا اور چیخ مار کر بیہوش ہوگئی۔ جب ہوش آیا تو لوگوں نے پوچھا کیا دیکھا تو نے ؟ اس نے کہا کہ میں نے ہوا دیکھی جس میں آگ کے شعلے تھے اس کے آگے کئی آدمی ہیں جو اس کو کھینچ کر لا رہے ہیں، اس عورت کا نام مھدد تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بادل کو سات راتیں اور آٹھ دن ان پر مسلط کیا۔ اس نے قوم عاد کے تمام افراد ہلاک کردیئے۔ ھود (علیہ السلام) اور مئومنین پہلے سے الگ ہوگئے تھے ان کو ہلکی ہلکی ہوا لگی جو بڑی بھلی معلوم ہوتی تھی اور قوم عاد پر بڑی شدید تھی کہ ان کو زمین سے آسمان کی طرف اٹھاتی تھی پھر زمین پر پٹختی تھی۔ وہ وفد مکہ سے نکل کر معاویہ کے پاس آیا تو قوم عاد سے تین دن کی دوری پر ایک قوم آباد تھی۔ اس کا ایک شخص اونٹنی پر آیا، ایک تاریک رات میں اور خبر دی تو انہوں نے پوچھا ھود (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ کہاں تھے ؟ اس نے کہا سمندر کے ساحل پر گویا ان کو ابھی بھی شک تھا۔ تو ہزیلتہ بنت بکر کہنے لگی اللہ کی قسم اس نے سچ خبر دی ہے اور یہ بات بھی ذکر کی گئی ہے کہ مرثد بن سعد، لقمان بن عاد اور قیل بن عنز نے جب مکہ میں دعا کی تو ان کو کہا گیا کہ تمہاری دعا قبول ہوگئی اب اپنے لئے کچھ مانگو، سوائے ہمیشہ زندہ رہنے کے کیونکہ موت تو ہر ایک کو آنی ہے تو مرثد نے دعا مانگی اے اللہ ! مجھے سچائی اور نیکی دے۔ یہ ان کو مل گئی۔ لقمان نے کہا مجھے لمبی عمر دیں، کہا گیا تو خود اختیار کر کتنی ہو ؟ اس نے سات گدھوں کی عمر پسند کی ہر گدھ اسی سال زندہ رہا اور ساتویں گدھ کے ساتھ یہ بھی مرگیا اور قیل نے کہا جو چیز میری قوم کو پہنچی مجھے بھی وہی دیں تو کہا گیا کہ ہلاکت ؟ اس نے کہا مجھے پرواہ نہیں ان کے بعد زندگی کی مجھے ضرورت نہیں تو اس کو بھی وہی عذاب پہنچا اور ہلاک ہوگیا۔ سدی (رح) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے عاد پر سخت آندھی بھیجی جب آندھی ان کے قریب ہوئی تو انہوں نے اونٹوں اور مردوں کو دیکھا کہ وہ آسمان و زمین میں اڑ رہے ہیں جب ان لوگوں نے یہ دیکھا ت جلدی سے گھروں میں گھس کر دروازے بند کر لئے تو آندھی نے دروازہ جڑ سے اکھاڑ دیئے اور ان کو ہلاک کردیا پھر ان کو گھروں سے نکال دیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک ک دیا تو ان پر سیاہ پرندے بھیجے جنہوں نے ان کو اٹھا کر سمندر میں ڈال دیا اور روایت کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آندھی کو حکم دیا اس نے ان پر ریت ڈال دی وہ سات راتیں اور آٹھ دن ریت کے نیچے رہے اور وہ ریت کے نیچے آہ آہ کرتے رہے ۔ پھر ہوا کو حکم دیا تو اس نے ان سے ریت ہٹا دی۔ پھ ران کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا اور جب بھی ہوا آتی ہے تو ایک اندازہ و مکیال سے آتی ہے۔ لیکن اس دن داروغہ سے سرکشی کی اور ان پر غالب آگئی، ان کو بھی پتہ نہ چلا کہ اس کی مقدار کتنی تھی اور حدیث میں ہے کہ ہوا انگوٹھی کے سوراخ جتنی نکلی۔ علی ؓ سے مروی ہے کہ ھود (علیہ السلام) کی قبر اطہر حضر موت میں سرخ ٹیلہ میں ہے اور عبدالرحمٰن بن سابط کہتے ہیں رکن اور مقام اور زمزم کے درمیان ننانوے انبیاء کی قبر ہے اور ہود، شعیب ، صالح اور اسماعیل (علیہم السلام) کی قبر اسی جگہ میں ہے۔ یہاں تک کہ ساتویں پر آئے اور ہر گدھ اسی (80) سال زندہ رہتا ہے اور ان میں سے آخری لبد تھا جب لبد مرگیا تو لقمان (علیہ السلام) بھی اس کے ساتھ فوت ہوگئے۔ بہرحال قیل تو اس نے کہا کہ میں وہی اختیار کرتا ہوں جو میری قوم کو پہنچا ہے تو اس کو کہا گیا ہلاکت ؟ تو اس نے کہا مجھے پرواہ نہیں ہے ان کے بعد مجھے زندہ رہنے کی ضرورت نہیں ہے تو جو عذاب قوم عاد پر آیا وہ اس پر بھی آپ تو وہ ہلاک ہوگیا اور روایت کیا گیا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) میں سے کسی نبی کی قوم جب ہلاک ہوجاتی تو وہ نبی (علیہ السلام) اپنی قوم کے نیک لوگوں کے ساتھ مکہ آتے اور وہاں وفات تک اللہ کی عبادت کرتے رہتے۔
Top