Tafseer-e-Baghwi - Al-Anfaal : 19
اِنْ تَسْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَآءَكُمُ الْفَتْحُ١ۚ وَ اِنْ تَنْتَهُوْا فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ۚ وَ اِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ١ۚ وَ لَنْ تُغْنِیَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَیْئًا وَّ لَوْ كَثُرَتْ١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠
اِنْ : اگر تَسْتَفْتِحُوْا : تم فیصلہ چاہتے ہو فَقَدْ : تو البتہ جَآءَكُمُ : آگیا تمہارے پاس الْفَتْحُ : فیصلہ وَاِنْ : اور اگر تَنْتَهُوْا : تم باز آجاؤ فَهُوَ : تو وہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاِنْ : اور اگر تَعُوْدُوْا : پھر کروگے نَعُدْ : ہم پھر کریں گے وَلَنْ : اور ہرگز نہ تُغْنِيَ : کام آئے گا عَنْكُمْ : تمہارے فِئَتُكُمْ : تمہارا جتھا شَيْئًا : کچھ وَّلَوْ : اور خواہ كَثُرَتْ : کثرت ہو وَاَنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
(کافرو) اگر تم (محمد ﷺ پر) فتح چاہتے ہو تو تمہارے پاس فتح آچکی۔ (دیکھو) اگر تم (اپنے افعال سے) باز آجاؤ تو تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر پھر (نافرمانی) کرو گے تو ہم بھی پھر (تمہیں عذاب) کریں گے۔ اور تمہاری جماعت خواہ کتنی ہی کثیر ہو تمہارے کچھ بھی کام نہ آئے گی۔ اور خدا تو مومنوں کے ساتھ ہے۔
(19) (ان تستفتحوا فقد جآء کم الفتح) کا پس منظر یہ ہے کہ ابو جہل ملعون بدر کے دن کہنے لگا جب دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں کہ ہم میں سے کوئی زیادہ فخر والا ہے ؟ میں یا محمد جو رشتہ داری کو توڑنے والا ہے اور ہمارے پاس ایسا دین لایا جس کو ہم نہیں پہچانتے تو کل اس کو شکست دے تو وہ اپنے لئے فتح طلب کر رہا تھا۔ عبدالرحمٰن بن عوف ؓ فرماتے ہیں کہ میں بدر کے دن صف میں تھا، میں نے دائیں بائیں توجہ کو تو دو لڑکے تھے کم عمر تو میں ان کے ہونے کی وجہ سے مطمئن نہ ہوا، اچانک ایک نے مجھے آہستہ سے کہا کہ اے چچا مجھے ابوجہل دکھا میں نے کہا اے بھتیجے ! تو اس کا کیا کرے گا ؟ اس نے کہا میں نے اللہ سے وعدہ کیا ہے کہ اگر اس کو دیکھا تو یا اس کو قتل کر دوں گا یا خود مر جائوں گا تو دوسرے نے بھی آہستہ سے مجھ سے یہی بات پوچھی تو مجھے یہ بات اچھی نہ لگی کہ ان کی جگہ دو مردوں کے درمیان ہوتا تو میں نے ان دونوں کو ابو جہل کی طرف اشارہ کیا تو وہ اس پر عقاب کی طرح دوڑے اور اس کو مار دیا یہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کے دن فرمایا کہ کون ہمارے لئے یہ دیکھ کر آتا ہے کہ ابو جہل کے ساتھ کیا ہوا ؟ تو ابن مسعود ؓ گئے تو اس کو دیکھا کہ وہ ہلاکت کے قریب ہے تو اس کی داڑھی پکڑی اور کہا کہ تم ابوجہل ہے ؟ تو وہ کہنے لگا کہ کیا اس آدمی کے اوپر جس کو اس کی قوم نے قتل کیا یا کہا تم لوگوں نے قتل کیا۔ معاذ بن عمرو بن جموح ؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ غزوہ بدر سے فارغ ہوئے تو حکم دیا کہ ابوجہل بن ہشام کو مقتولین میں تلاش کیا جائے، جب میں نے یہ سنا تو میں اس کا ارادہ کر کے چلا تو میں نے اس کو ایک ضرب لگائی تو اس کے پائوں ہوا میں اڑ گئے اور مجھے اس کے بیٹے عکرمہ ؓ نے کندھے پر تلوار ماری تو میرا ہاتھ کٹ گیا اور میری جلد سے لٹک کر رہ گیا اور مجھے اس کی وجہ سے لڑائی میں مشقت پیش آئی تو دن کا اکثر حصہ میں نے اس کو پیچھے لٹکا کر گزارا جب مجھے زیادہ تکلیف دینے لگا تو میں نے اس کو پائوں کے نیچے رکھ کر زور لگایا تو اس کو جدا کردیا۔ پھر ابوجہل پر گزر ہوا اس کو معاذ بن مسعود ؓ کا گزر ہوا وہ فرماتے ہیں کہ وہ آخری سانیں لے رہا تھا، میں نے اس کو پہچان لیا اور اپنا پائوں اس کی گردن پر رکھا اور کہا کیا تجھے اللہ نے رسوا کردیا ہے۔ اے اللہ کے دشمن ! اس نے کہا کسی چیز کے ساتھ رسوا کیا ہے ؟ تو مجھے بتا فتح کس کی ہوئی ؟ میں نے کہا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ۔ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ مجھے ابوجہل نے کہا اے بکریوں کے چرواہے تو بڑی سخت جگہ پر چڑھا ہوا ہے۔ پھر میں نے اس کا سر الگ کیا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آیا، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! یہ ابوجہل کا سر ہے تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کیا اللہ وہ ذات ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ؟ میں نے کہا جی ہاں اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پھر میں نے اس کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے ڈال دیا تو آپ (علیہ السلام) نے اللہ کی تعریف کی۔ سدی اور کلبی رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ مشرکین جب مکہ سے نکلنے لگے تو کعبہ کے پردوں کو پکڑ کر دعا کی۔ اے اللہ ! دونوں لشکروں میں سے اعلیٰ اور دونوں جماعتوں میں سے ہدایت یافتہ جماعت اور دونوں گروہوں میں سے معزز اور دونوں دینوں میں سے افضل کی مدد کر، تو یہ آیت نازل ہوئی ” ان تستفتحوا فقد جاء کم الفتح “ ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ یہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام ؓ کو خطاب ہے۔ حضرت خباب ؓ سے روایت ہے کہ آپ (علیہ السلام) کعبہ کے سایہ میں اپنی چادر کو تکیہ بنا کر لیٹے ہوئے تھے مشرکین ہمیں تنگ کرتے تھے تو ہم نے آپ کو شکایت کی کہ آپ (علیہ السلام) اللہ سے دعا کریں تو آپ (علیہ السلام) جلدی سے اٹھ بیٹھے اور چہرہ انور سرخ ہوگیا اور فرمایا تم سے پہلے لوگوں میں کسی شخص کے لئے زمین میں گڑھا کھود کر زندہ ڈال دیا جاتا تھا اور آرا لا کر اس کے سر پر رکھ کر دو ٹکڑے کردیئے جاتے تھے یہ تکلیف اس کو اللہ کے دین سے نہ روکتی تھی اور لوہے کے کنگھی پھیری جاتی تھی جو اس کے گوشت سے گزر کر ہڈیوں اور پٹھوں تک پہنچ جاتی تھی لیکن یہ تکلیف اس کو اللہ کے دین سے نہ روکتی تھی۔ اللہ کی قسم ! اللہ اپنے اس دین کو مکمل کرے گا حتیٰ کہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت کی طرف چلے گا، راستے میں اس کو اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا نہ اپنی بکریوں پر بھیڑیئے کا خوف ہوگا لیکن تم جلدی کر رہے ہو (وان تنتھوا فھو خیر لکم وان تعودو نعد) یعنی اگر تم دوبارہ لڑائی اور قتال کرو گے تو ہم بھی وہی معاملہ کریں گے جو بدر میں تمہارے ساتھ کیا اور بعض نے کہا کہ اگر تم دوبارہ فتح کی دعا کرو گے تو ہم بھی فتح محمد ﷺ کو دیں گے (ولن تغنی عنکم فتتکم شیئاً ولوکثرت ان اللہ مع الممنین) اہل مدینہ ما ابن عامر اور حفص نے (وان اللہ) ہمزہ کے زبر کے ساتھ پڑھا ہے یعنی اور اس لئے کہ اللہ مومنین کے ساتھ ہے۔ اسی طرح (لن تغنی عنکم فتتکم شیئاً ) اور بعض نے کہا ہے کہ اس کا عطف اللہ تعالیٰ کے قول (ذلکم وان اللہ موھن کیدالکافرین) پر ہے اور دیگر حضرات نے (وان اللہ) الف کی زیر کے ساتھ نئی کلام ہونے کی بنا پر پڑھا ہے۔
Top