Tafseer-e-Baghwi - Al-Anfaal : 33
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُعَذِّبَهُمْ : کہ انہیں عذاب دے وَاَنْتَ : جبکہ آپ فِيْهِمْ : ان میں وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے اللّٰهُ : اللہ مُعَذِّبَهُمْ : انہیں عذاب دینے والا وَهُمْ : جبکہ وہ يَسْتَغْفِرُوْنَ : بخشش مانگتے ہوں
اور خدا ایسا نہ تھا کہ جن تک تم ان میں تھے انہیں عذاب دیتا۔ اور نہ ایسا تھا کہ وہ بخش مانگیں اور انہیں عذاب دے۔
33(وما کان اللہ لیعذبھم وانت فیھم) اس آیت کے معنی میں اختلاف ہے۔ محمد ابن اسحاق (رح) فرماتے ہیں یہ مشرکین کا قول نقل کیا ہے۔ یہ پہلی آیت سے متصل ہے کیونکہ وہ کہتے تھے کہ ہم استغفار کرتے ہیں اللہ ہمیں عذاب نہ دیں گے اور اللہ کسی ایسی امت کو عذاب نہیں دیتا جن کا نبی ان میں ہو تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ان کی جہالت ، دھوکہ اور اپنے خلاف بد دعا کرنے کو ذکر کیا۔” واذا قالوا اللھم ان کان ھذا ھو الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السمائ “ اور انہوں نے کہا ” وما کان اللہ لیعذبھم وانت فیھم وما کان اللہ معلبھم وھم یستغفرون “ پھر ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا ” ومالھم الا یعذبھم اللہ اگرچہ آپ (علیہ السلام) ان کے درمیان ہوں اور وہ استغفار کرتے ہوں اور مسجد حرام سے روکتے ہوں۔ مفسرین رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ یہ نئی کلام ہے اللہ تعالیٰ خود اپنے بارے میں خبر دے رہے ہیں کہ (وما کان اللہ لیعدبھم وانت فیھم) ای کی تفسیر میں اختلاف ہے۔ ضحاک (رح) اور ایک جماعت کہتی ہے کہ اس کی تاویل یہ ہے کہ جب تک آپ (علیہ السلام) ان میں مقیم ہیں اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہ دے گا، یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ ﷺ میں مقیم تھے۔ جب آپ (علیہ السلام) وہاں سے مدینہ تشریف لے گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی (وما کان اللہ معذبھم وھم یستغفرون) کیونکہ ابھی وہاں کچھ مسلمان تھے جو استغفار کرتے تھے۔ جب یہ لوگ بھی نکل گئے تو کفار مکہ کو فتح مکہ کے ذریعے عذاب دیا گیا۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی بستی کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتے جب تک وہاں کے نبی اور مئومنین وہاں سے نکل کر اس جگہ نہ چلے جائیں جہاں کا ان کو حکم دیا گیا ہے۔ پھر یہ آیت پڑھی ” وما کان اللہ لیعذبھم الخ “ ابو موسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ تم میں دو امن کی چیزیں ہیں (1) نبی کریم ﷺ (2) استغفار ۔ نبی کریم ﷺ جا چکے اور استغفار تم میں قیامت تک رہے گا اور ان میں سے بعض نے کہا ہے یہ استغفار مشرکین کی طرف لوٹ رہا ہے کیونکہ وہ طواف کے بعد غفرانک غفرانک کہتے تھے اور یزید بن رومان کہتے ہیں قریش نے کہا اگر یہ حق ہے تیری طرف سے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا تو شام کو اپنے کہے پر شرمندا ہوئے اور کہا ” غفرانک اللھم “ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” وما کان اللہ معذبھم وھم یستغفرن “ اور قتادہ اور سدی رحمہما اللہ فرماتے ہیں ” ومان کان اللہ معذبھم وھم یستغفرون “ یعنی اگر وہ استغفار کریں لیکن وہ استغفار نہیں کرتے تھے کیونکہ اگر وہ گناہ کا اقرار کر کے استغفار کرتے تو وہ مئومن ہوجاتے اور بعض نے کہا ہے یہ اسلام کی طرف دعوت ہے اس کلمہ سے استغفار کرنا جیسے آدمی دوسرے کو کہے میں تھے سزا نہ دوں گا اور تو میری اطاعت کرے گا۔ یعنی تو میری اطاعت کرتا کہ میں تجھے سزا نہ دوں اور مجاہد اور عکرمہ رحمہما اللہ فرماتے ہیں ” ھم یستغفرون “ یعنی وہ اسلام لے آئیں۔ فرماتے ہیں اگر وہ اسلام لے آئیں تو عذاب نہ دیئے جائیں گے اور والبی (رح) نے ابن عباسی ؓ سے روایت کیا ہے کہ مشرکین میں کئی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے سے طے تھا کہ وہ اسلام لے آئیں گے اور استغفار کریں گے اور یہ ابوسفیان اور صفوان بن امیہ اور عکرمہ بن ابی جہل، سہیل بن عمرو، حکیم بن حزام وغیرہ ہیں اور عبدالوہاب نے مجاہد رحمہما اللہ سے روایت کیا ہے ” وھم یستغفرون “ یعنی ان کی اولاد میں استغفار کرنے والے ہیں۔
Top