Tafseer-e-Baghwi - Al-Anfaal : 44
اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتْ اَوْدِیَةٌۢ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَّابِیًا١ؕ وَ مِمَّا یُوْقِدُوْنَ عَلَیْهِ فِی النَّارِ ابْتِغَآءَ حِلْیَةٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهٗ١ؕ كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْحَقَّ وَ الْبَاطِلَ١ؕ۬ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَآءً١ۚ وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْاَرْضِ١ؕ كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَؕ
اَنْزَلَ : اس نے اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمانوں سے مَآءً : پانی فَسَالَتْ : سو بہہ نکلے اَوْدِيَةٌ : ندی نالے بِقَدَرِهَا : اپنے اپنے اندازہ سے فَاحْتَمَلَ : پھر اٹھا لایا السَّيْلُ : نالہ زَبَدًا : جھاگ رَّابِيًا : پھولا ہوا وَمِمَّا : اور اس سے جو يُوْقِدُوْنَ : تپائے ہیں عَلَيْهِ : اس پر فِي النَّارِ : آگ میں ابْتِغَآءَ : حاصل کرنے (بنانے) کو حِلْيَةٍ : زیور اَوْ : یا مَتَاعٍ : اسباب زَبَدٌ : جھاگ مِّثْلُهٗ : اسی جیسا كَذٰلِكَ : اسی طرح يَضْرِبُ : بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْحَقَّ : حق وَالْبَاطِلَ : اور باطل فَاَمَّا : سو الزَّبَدُ : جھاگ فَيَذْهَبُ : دور ہوجاتا ہے جُفَآءً : سوکھ کر وَاَمَّا : اور لیکن مَا يَنْفَعُ : جو نفع پہنچاتا ہے النَّاسَ : لوگ فَيَمْكُثُ : تو ٹھہرا رہتا ہے وہ فِي الْاَرْضِ : زمین میں كَذٰلِكَ : اسی طرح يَضْرِبُ : بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْاَمْثَالَ : مثالیں
اور اس وقت جب تم ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تو کافروں کو تمہاری نظروں میں تھوڑا کر کے دکھاتا تھا اور تم کو ان کی نگاہوں میں تھوڑا کر کے دکھاتا تھا تاکہ خدا کو جو کام کرنا منظور تھا اسے کر ڈالے اور سب کاموں کا رجوع خدا ہی کی طرف ہے۔
44…(واذا یریکموھم اذا لتقبتم فی اعینکم قلیلاً ) مقاتل (رح) فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ دشمن کی تعداد بہت تھوڑی ہے اور اپنے صحابہ کرام ؓ کو یہ خبر دی تو جب بدر میں ٹکرائو ہوا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی نگاہ میں مشرکوں کو کم دکھایا۔ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ وہ ہماری نگاہ میں اتنے کم ہوگئے کہ میں نے ایک صحابی کو کہا کہ یہ ستر کی تعداد لگتے ہیں اس نے کہا مجھے سو کی تعداد کے برابر لگتے ہیں، پھر جب ہم نے ایک کافر کو قید کیا تو اس سے ان کی تعداد پوچھی تو اس نے کہا ایک زہار تھی (ویقللکم فی اغینھم) سدی (رح) فرماتے ہیں کہ مشرکین کے کچھ لوگ کہنے لگے کہ تجارتی قافلہ حفاظت سے جا چکا ہے تم بھی واپس چلو تو ابوجہل کہنے لگا اب لوٹتے ہو جب محمد ﷺ اور ان کے ساتھی تمہارے سامنے آگئے ہیں ؟ تم واپس نہ جائو جب تک ان کو جڑ سے نہ اکھاڑدو، بیشک محمد ﷺ اور ان کے ساتھی تو اونٹ کا لقمہ ہیں تم ان کو نہ مارو بلکہ رسیوں سے باندھ دو ، یہ بات اس نے اپنی طاقت کی وجہ سے کہی تھی۔ کلبی (رح) فرماتے ہیں کہ مشرکین کی نگاہ میں مسلمان تھوڑے دکھائے تاکہ لڑائی سے گریز نہ کریں اور مسلمانوں کی نگاہ میں مشرکین کو کم دکھایا تاکہ وہ ڈر نہ جائیں (لیقضی اللہ امراً ) اسلام کو بلند کرنا اور اہل اسلام کو عزت دینا اور مشرکین کو ذلیل کرنا۔ (کان مفعولاً ط والی اللہ ترجع الامور)
Top