Tafseer-e-Baghwi - Al-Anfaal : 58
وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَیْهِمْ عَلٰى سَوَآءٍ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ۠   ۧ
وَاِمَّا : اور اگر تَخَافَنَّ : تمہیں خوف ہو مِنْ : سے قَوْمٍ : کسی قوم خِيَانَةً : خیانت (دغا بازی) فَانْۢبِذْ : تو پھینک دو اِلَيْهِمْ : ان کی طرف عَلٰي : پر سَوَآءٍ : برابری اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْخَآئِنِيْنَ : دغا باز (جمع)
اور اگر تم کو کسی قوم سے دغا بازی کا خوف ہو تو (ان کا عہد) انہیں کی طرف پھینک دو (اور) برابر (کا جواب دو ) کچھ شک نہیں کہ خدا دغابازوں کو دوست نہیں رکھتا۔
58(واما تخافن من قوم خیانۃ) جیسے بنو قریظہ اور بنو نضیر سے ظاہر ہوا (فام نبذ الیھم علی سوآئ) یہی جنگ سے پہلے ان کو اطلاع کردیں کہ آپ (علیہ السلام) نے ان کے ساتھ کیا ہوا معاہدہ توڑ دیا ہے تاکہ معاہدہ کے ٹوٹنے کے علم میں تم سب برابر ہو جائو تاکہ ان کو یہ وہم نہ ہو کہ آپ (علیہ السلام) نے لڑائی کر کے توڑا ہے (ان اللہ لایحب الخآئنین) سلیم بن عامر نے حمیر کے ایک شخص سے روایت کیا ہے وہ کہتا ہے کہ حضرت معاویہ ؓ اور رو م کے درمیان معاہدہ تھا۔ آپ ؓ فوج لے کر ان کے شہروں کی طرف چل پڑے کہ جیسے ہی عہد ٹوٹے گا تو ان پر حملہ کردیں تو ایک آدمی گھوڑے پر سوار ہو کر آیا اور کہا اللہ اکبر اللہ اکبر ! وعدہ پورا کر ددھو کہ نہ دو ۔ حضرت معاویہ ؓ نے دیکھا تو وہ عمرو بن عبسہ ؓ تھے تو حضرت معاویہ ؓ نے پوھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جس شخص کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو وہ نہ گرہ باندھے اور نہ کھولے جب تک معاہدہ کی مدت ختم نہ ہوجائے یا ان کا معاہدہ توڑ کر ان کو بتادے تو حضرت معاویہ ؓ واپس لوٹ گئے۔
Top