Tafseer-e-Baghwi - Al-Anfaal : 67
مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا١ۖۗ وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِنَبِيٍّ : کسی نبی کے لیے اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : ہوں لَهٗٓ : اس کے اَسْرٰي : قیدی حَتّٰي : جب تک يُثْخِنَ : خونریزی کرلے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین تُرِيْدُوْنَ : تم چاہتے ہو عَرَضَ : مال الدُّنْيَا : دنیا وَاللّٰهُ : اور اللہ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْاٰخِرَةَ : آخرت وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
پیغمبر کو شایان نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں جب تک (کافروں کو قتل کر کے) زمین میں کثرت سے خون (نہ) بہا دے۔ تم لوگ دنیا کے مال کے طالب ہو۔ اور خدا آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے۔ اور خدا غالب حکمت والا ہے۔
67(ما اکن لنبی ان یکون لہ اسری) ابو جعفر اور اہل بصرہ نے (تکون) تاء کے ساتھ پڑھا ہے اور باقی حضرات نے یاء کے ساتھ اور ابو جعفر (رح) نے ” اساری “ اور دیگر حضرات نے ” اسری “ پڑھا ہے۔ (حتی یثخن فی الارض) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ بدر کے دن جب قیدیوں کو لایا گیا تو آپ (علیہ السلام) نے پوچھا تم لوگ ان قیدیوں کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ تو حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ! (ﷺ ) آپ کی قوم اور رشتہ دار ہیں ان کو زندہ رکھیں۔ شاید اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرلیں اور ان سے فدیہ لے لیں جو ہمارے لئے کفار کے خلاف قوت کا سبب بنے اور حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! ان لوگوں نے آپ (علیہ السلام) کی تکذیب کی اور آپ (علیہ السلام) کو مکہ سے نکالا، آپ ان کو ہمیں دیں ہم ان کی گردنیں اڑائیں۔ علی ؓ کو عقیل پر قدرت دیں کہ وہ عقیل کی گردن اڑائیں اور مجھے میرے فلاں رشتہ دار پر قدرت دیں میں اس کی گردن کاٹوں کیونکہ یہ کفر کے بڑے امام ہیں اور عبد اللہ بن رواحہ ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! (ﷺ ) آپ ایسی وادی میں ان کو داخل کردیں جہاں خشک لکڑیاں زیادہ ہوں، پھر ان کو آگ لگا دیں تو حضرت عباس ؓ نے ان کو کہا تو نے اپنی رشتہ داری کو توڑ دیا تو آپ (علیہ السلام) خاموش ہوگئے کسی کو جواب نہ دیا۔ پھر آپ گھر داخل ہوئے تو کچھ لوگ کہنعے لگے کہ حضرت ابوبکر ؓ کی رائے پر عمل ہونا چاہیے، کچھ نے کہا حضرت عمر ؓ کی رائے پر اور بعض نے کہا حضرت ابن رواحہ ؓ کی رائے پر۔ پھر جب آپ (علیہ السلام) گھر سے نکلے تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کے دلوں کو اتنا نرم کردیا ہے کہ وہ دودھ سے زیادہ نرم ہیں اور بعض لوگوں کے دلوں کو اتنا زیادہ سخت کردیا ہے کہ وہ پتھر سے زیادہ سخت ہیں اور بیشک اے ابوبکر ! تیری مثال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جو میری اتباع کرے وہ مجھ سے ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو اے اللہ تو بخشنے والا رحم کرنے والا ہے اور اے ابوبکر ! تیری مثال حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جیسی ہے کہ انہوں نے کہا اگر تو ان کو عذاب دے تو تیرے بندے ہیں اور اگر ان کو معاف کر دے تو بیشک تو غالب حکمت والا ہے اور بیشک اے عمر تیری مثال حضرت نوح (علیہ السلام) کی سی ہے کہ انہوں نے فرمایا اے میرے رب ! زمین پر کافروں کا کوئی گھر نہ چھوڑا اور اے عبداللہ بن رواحہ ؓ تیری مثال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ اے ہمارے رب ! تو ان کے مال تباہ کر دے اور ان کے دلوں پر سختی کر دے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی فدیہ یا قتل کے بغیر نہ چھوٹ سکے گا۔ عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا سوائے سہیل بن بیضاء کے کہ میں نے ان کو اسلام کا ذکر کرتے سنا ہے تو آپ (علیہ السلام) خاموش ہوگئے تو میں نے اس دن سے زیادہ اپنے آپ کو خوف میں نہ دیکھا، مجھے ڈر ہوا کہ اس دن آسمان سے مجھ پر پتھر گریں گے حتی کہ خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سوائے سہیل بن بیضاء کے ۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا میلان حضرت ابوبکر ؓ کی رائے کی طرف تھا، میری رائے کی طرف نہ تھا۔ جب میں اگ لے دن آیا تو رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ بیٹھے رو رہے تھے تو میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! مجھے تو بتایئے کہ آپ اور آپ کے ساتھی کس بات پر رو رہے ہیں ؟ تو اگر مجھے بھی رونا آگیا تو میں بھی روئوں گا ورنہ رونے کی صورت میں بنا لوں گا تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا مجھے تیرے ساتھیوں کی اس بات نے رلا دیا کہ ان سے فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے تحقیق ان پر عذاب اس درخت سے بھی قریب آچکا تھا آپ (علیہ السلام) نے اپنے قریب ایک درخت کی طرف اشارہ فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ” ما اکن لنبی ان یکون لہ اسریٰ “ حتی یثخن فی الارض اپنے قول (فکلوا مما غنمتم حلالاً طیبا) تک اتاری تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے غنیمت کو حلال کردیا (اسری) اسیر کی جمع ہے قطعی اور قتیل کی طرح (حتی یثخن فی الارض) یعنی مشرکین کو قتل اور قید کرنے میں مبالغہ کرے۔ (تریدون عرض الدنیا) فدیہ لے کر (واللہ یرید الاخرۃ) اللہ تمہارے لئے ثواب چاہتا ہے تمہیں دشمن پر غالب کر کے (واللہ عزیز حکیم) ہر قیدی کا فدیہ چالیس اوقیہ تھا اور ایک اوقیہ چالیس درہم ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ حکم بدر کے دن تھا کیونکہ اس وقت مسلمان تھوڑے تھے، جب مسلمان زیادہ ہوگئے اور ان کی قوت بڑھ گئی تو اللہ تعالیٰ نے قیدیوں کے بارے میں یہ حکم اتارا ” فاما منا بعد واما فدائ “ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (علیہ السلام) اور مئومنین کو اختیار دیا کہ اگر چاہیں تو قیدیوں کو قتل کردیں اور اگر چاہیں تو ان کو آزاد کردیں اور اگر چاہو تو ان کو غلام بنادو اور اگر چاہو تو ان سے فدیہ لو۔
Top