Tafseer-e-Baghwi - At-Tawba : 103
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
خُذْ : لے لیں آپ مِنْ : سے اَمْوَالِهِمْ : ان کے مال (جمع) صَدَقَةً : زکوۃ تُطَهِّرُھُمْ : تم پاک کردو وَتُزَكِّيْهِمْ : اور صاف کردو بِهَا : اس سے وَصَلِّ : اور دعا کرو عَلَيْهِمْ : ان پر اِنَّ : بیشک صَلٰوتَكَ : آپ کی دعا سَكَنٌ : سکون لَّھُمْ : ان کے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
ان کے مال میں سے زکوٰۃ قبول کرلو کہ اس سے تم ان کو (ظاہر میں بھی) پاک اور (باطن میں بھی) پاکیزہ کرتے ہو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے۔ اور خدا سننے والا اور جاننے والا ہے۔
آیت نمبر 103: توبہ کرنے والے افراد کی تعداد تفسیر : ان توبہ کرنے والے حضرات کی تعداد میں اختلاف ہے۔ علی بن ابی طلحہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ دس تھے ‘ ان میں سے حضرت ابو لبابہ ؓ بھی تھے اور عطیہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ پانچ تھے۔ ان میں سے ایک ابو لبابہ ؓ تھے۔ سعید بن جبیر ؓ اور زید بن اسلم (رح) فرماتے ہیں کہ آٹھ تھے۔ ضحاک اور قتادہ رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ سات تھے اور یہ سب کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک ابو لبابہ ؓ تھے اور علماء کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ صرف ابو لبابہ ؓ کے بارے میں آیت نازل ہوئی ہے۔ پھر ان کے گناہ میں اختلاف ہے۔ حضرت ابو لبابہ کی توبہ کا ذکر مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ یہ آی تابو لبابہ ؓ کے بارے میں اس وقت نازل ہوئی جب انہوں نے بنو قریظہ کو کہا تھا کہ اگر تم ان کے فیصلہ پر آگئے تو حلق کی طرف اشارہ کرکے ذبح کا بتایا اور زہری (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو لبابہ ؓ کے غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے نازل ہوئی کہ انہوں نے اپنے آپ کو ستون سے باند ھ لیا تھا اور کہا تھا اللہ کی قسم ! میں اپنے آپ کو نہ کھولوں گا اور نہ کھانا کھائوں گا اور نہ کچھ پیوں گا یہاں تک کہ میں مرجائوں یا اللہ ! میری توبہ قبول کرلیں تو سات دن اسی حال پر رہے نہ کچھ کھایا ہ پیا۔ حتیٰ کہ بےہوش ہو کر گرپڑے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تو ان کو کہا گیا کہ آپ ؓ کی تو بہ قبول ہوگئی تو انہوں نے کہا اللہ کی قسم ! میں خود کو نہ کھولوں گا جب تک مجھے رسول اللہ ﷺ خود آکر نہ کھولیں تو آپ (علیہ السلام) تشریف لائے اور ان کو کھولا۔ پھر حضرت ابو لبابہ ؓ نے کہا کہ میری توبہ یہ ہے کہ میں اپنی قوم کا پڑوس چھوڑ دوں جس کی وجہ سے گناہ میں مبتلا ہوا ہوں اور اپنا تمام مال اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے صدقہ کردوں تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا اے ابو لبابہ ! تجھے تہائی کافی ہے ‘ آگے سب حضرات فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ان حضرات کے مالوں کا تہائی حصہ قبول کیا اور دو تہائی ان لوگوں کے پاس رہنے دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا ” خذ من اموالھم “ کہ مال میں سے کچھ لیں ‘ یہ نہیں فرمایا تھا کہ سارا مال لے لیں۔ حسن اور قتادہ رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ ان تین کے علاوہ ہیں جو پیچھے رہ گئے تھے۔ آیت نمبر 103:” خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم “ اس کے ذریعے ان کے گناہوں کو ” وتزکیھم بھا “ ان کو منافقین کے مرتبہ سے بلند کرکے مخلصین کے مرتبہ تک پہنچا دیں اور بعض نے کہا کہ ان کے مال بڑھ جائیں ” وصل علیھم “ ان کے لیے دعا اور استغفار کریں۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ صدقہ وصول کرنے والے کا صدقہ دینے والے کو یہ کہنا ہے ” آجرک اللہ فیما اعطیت وبارک لک فیما ابقیت “ ( اللہ تیرے دیئے ہوئے پر اجر دیں اور باقی مال میں برکت دیں) اور الصلاۃ کا معنی دعا کرنا ہے۔” ان صلاتک “ حمزہ اور کسائی رحمہما اللہ نے ” صلاتک “ واحد کا صیغہ اور یہاں تاء کے زبر کے ساتھ پڑھا ہے اور سورة ہود میں ” اصلاتک “ اور سورة المئومنین میں ” علی صلاتھم “ سب کو واحد کا صیغہ۔ حفص (رح) نے ان دونوں کی یہاں اور سورة ہود میں موافقت کی ہے اور دیگر حضرات نے ان سب میں جمع کا صیغہ اور یہاں تاء کی زیر پڑھی ہے اور سورة مئومنین میں بھی اور الا نعام میں اختلاف نہیں ہے۔” وھم علی صلا تھم یحافظون “ اور المعارج میں جو ہے ” وھم علی صلاتھم دائمون “ یہ دونوں واحد کے صیغے ہیں۔” ان صلاتک سکن لھم “ یعنی بیشک آپ کی دعا ان کے لیے رحمت ہے۔ یہ بات ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اور بعض نے کہا کہ ان کے لیے سکون و اطمینان ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی ہے۔ اور ابو عبیدہ فرماتے ہیں ان کے دلوں کو ثابت قدم رکھنے والی ہے ” واللہ سمیع علیم “ مسئلہ :۔ اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ صدقہ وصول کرنے کے وقت امام پر دعا دینا واجب ہے یا نہیں ؟ بعض علماء رحمہم اللہ نے کہا ہے کہ واجب ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مستحب ہے اور بعض نے کہا ہے کہ فرض صدقات کی وصول کے وقت دعا واجب ہے اور نفلی صدقات کے وقت مستحب ہے۔ عمرو بن مرۃ (رح) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفی ؓ کو فرماتے سنا ( یہ اصحاب ثجرہ میں سے ہیں) کہ نبی کریم ﷺ کے پاس جب کوئی قوم مصدقہ لاتی۔ تو آپ (علیہ السلام) فرماتے ” الھم صل علیھم “ تو میرے والد آپ (علیہ السلام) کے پاس صدقہ لے کر حاضر ہوئے تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ” اللھم صل علی آل ابی اوفی “ اور ابن کیسان (رح) فرماتے ہیں کہ یہ فرض صدقہ میں نہیں ہے بلکہ قسم کے کفارہ کے صدقہ میں ہے اور عکرمہ (رح) فرماتے ہیں کہ فرض صدقہ میں ہے۔ جب ان لوگوں کی توبہ قبول ہوگئی تو جن لوگوں نے پیچھے رہ جانے کے باوجود توبہ نہیں کی تھی وہ کہنے لگے کہ یہ لوگ کل تو ہمارے ساتھ تھے کہ نہ ان سے کوئی بات کرتا تھا نہ کوئی ساتھ بیٹھتا تھا۔ اب ان کو کیا ہوگیا ؟ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے واپس آکر منافقین سے گفتگو اور ہم نشینی سے منع فرمادیا تھا۔
Top