Tafseer-e-Baghwi - At-Tawba : 17
مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِیْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ١ؕ اُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ١ۖۚ وَ فِی النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں کے لیے اَنْ : کہ يَّعْمُرُوْا : وہ آباد کریں مَسٰجِدَ اللّٰهِ : اللہ کی مسجدیں شٰهِدِيْنَ : تسلیم کرتے ہوں عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں (اپنے اوپر) بِالْكُفْرِ : کفر کو اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ حَبِطَتْ : اکارت گئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے اعمال وَ : اور فِي النَّارِ : جہنم میں هُمْ : وہ خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
مشرکوں کو زیبا نہیں کہ خدا کی مسجدوں کو آباد کریں (جبکہ) وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہوں۔ ان لوگوں کے سب اعمال بیکار ہیں اور یہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔
17” ما کان للمشرکین ان یعمروا مسجد اللہ “ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عباس ؓ کو بدر کے دن قید کیا گیا تو مسلمانوں نے ان کو کفر اور قطع رحمی پر شرم دلائی اور حضرت علی ؓ نے سخت باتیں کیں تو حضرت عباس ؓ کہنے لگے کہ تم ہماری برائیاں ذکر کرتے ہو اور ہماری اچھائیاں ذکر نہیں کرتے تو حضرت علی ؓ نے پوچھا کیا تمہاری بھی کوئی خوبیاں ہیں ؟ انہوں نے کہا ہم مسجد حرام کو آباد و تعمیر کرتے ہیں کعبہ کی چوکیداری کرتے ہیں اور حاجیوں کو پانی پلاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے عباس ؓ کی تردید میں یہ آیت اتاری ” ما کان للمشرکین ان یعمروا مسجد اللہ “ یعنی مشرکین کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ کی مساجد کو تعمیر کریں، مسلمانوں پر ان کو روکنا واجب کیا ہے۔ اس لئے کہ مساجد تنہا اللہ کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہیں تو جو شخص اللہ کا منکر ہے تو اس کے لئے اس کو تعمیر کرنا جائز نہیں۔ ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ اس سے مراد معروف تعمیر اور اس کی مرمت ہے کہ اس سے کافر کو روکا جائے گا یہاں تک کہ اگر وہ وصیت کرے تو اس کو پورا نہیں کیا جائے گا اور بعض نے عمارۃ کے لفظ کو مسجد میں داخل ہونے اور اس میں بیٹھنے پر محمول کیا ہے۔ مساجد اللہ جمع کا لفظ ہے اور اس سے مراد صرف مسجد حرام ہے۔ حسن (رح) فرماتے ہیں کہ مشرکین کو موڑا جائے کہ وہ مسجد حرام کے اہل ہوجائیں۔ ابن کثیر اور اہل بصرہ رحمہما اللہ نے (مسجد اللہ) واحد کا صیغہ پڑھا ہے اور اس سے مسجد حرام مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قول ” وعمارۃ المسجد الحرام “ اور ” یقربوا المسجد الحرام “ کی وجہ سے اور دیگر حضرات نے ” مساجد اللہ “ جمع کا صیغہ پڑھا ہے اور اس سے بھی مسجد حرام مراد ہے۔ حسن (رح) فرماتے ہیں کہ جمع کا لفظ کہا ہے اس لئے کہ یہ تمام مساجد کا قبلہ ہے۔ فراء (رح) فرماتے ہیں بسا اوقات عرب واحد بول کر جمع اور جمع بول کر واحد مراد لیتے ہیں جیسے آدمی گھوڑے پر سوار ہو تو کہتا ہے ” اخذت فی رکوب البر اذین “ حالانکہ مراد ایک گھوڑے پر سوار ہوتا ہے) اور کہا جاتا ہے ” فلان کثیر الدرھم و الدینار “ مراد دراہم اور دانانیر ہوتے ہیں۔ ” شھدین علی انفسھم بالکفر “ حسن (رح) فرماتے ہیں کہ وہ خود کو کافر نہ کہتے تھے لیکن ان کی کفر یہ کلام ان کے کفر پر گواہ ہے اور ضحاک (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ان کی ان کے کفر پر گواہی ان کا بتوں کو سجدہ کرنا ہے کیونکہ قریش نے بیت الحرام کے باہر بت گاڑھے ہوئے تھے اور بیت اللہ کا ننگے طواف کرتے تھے۔ جب ایک چکر مکمل ہوتا تو بتوں کو سجد کرتے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے دوری پیدا ہوتی۔ اور سدی (رح) فرماتے ہیں ان کی خود پر کفر کی گواہی دینا کہ نصرانی سے پوچھا جائے تو کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے میں نصرانی ہوں اور یہودی سے پوچھا جائے تو وہ کہتا ہے میں یہودی ہوں اور مشرک سے پوچھا جائے تیرا دین کیا ہے ؟ تو وہ کہے گا مشرک ہوں۔” اولٓئک حبطت اعمالھم اس لئے کہ یہ غیر اللہ کیلئے ہیں وفی النار ھم خلدون “
Top