Tafseer-e-Baghwi - At-Tawba : 23
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَتَّخِذُوْٓا : تم نہ بناؤ اٰبَآءَكُمْ : اپنے باپ دادا وَاِخْوَانَكُمْ : اور اپنے بھائی اَوْلِيَآءَ : رفیق اِنِ : اگر اسْتَحَبُّوا : وہ پسند کریں الْكُفْرَ : کفر عَلَي الْاِيْمَانِ : ایمان پر (ایمان کے خلاف) وَ : اور مَنْ : جو يَّتَوَلَّهُمْ : دوستی کریگا ان سے مِّنْكُمْ : تم میں سے فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی لوگ هُمُ : وہ الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اے اہل ایمان ! اگر تمہارے (ماں) باپ اور (بہن ' بھائی) ایمان کے مقابلے کفر کو پسند کریں تو ان سے دوستی نہ رکھو۔ اور جو ان سے دوستی رکھیں گے وہ ظالم ہیں۔
23” یایھا الذین امنوا لاتتخذوآ آبآء کم و اخوانکم اولیآء “ یہ آیت ماقبل سے متصل ہے۔ حضرت عباس اور طلحہ ؓ کے قصہ اور ان کے ہجرت سے رکنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا تو ان کو ان کے گھر والوں اور اولاد نے روکا اور ان کو قسمیں دیں کہ ہمیں ضائع نہ کرو تو ان کے دل نرم ہوگئے اور ہجرت چھوڑ کر ان کے پاس رہ گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور مقاتل (رح) فرماتے ہیں کہ یہ آیت ان نو لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مرتد ہو کہ مکہ چلے گئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دوستی سے منع کردیا اور یہ آیت نازل فرمائی ” یا یھا الذین امنوا لاتتخذوا آباء کم واخوانکم اولیائ “ اندرونی راز دان اور دوست کہ تم ان تک اپنے راز پہنچائو اور تم ہجرت اور جہاد میں ان کے ساتھ ٹھہرنے کو ترجیح دو ۔” ان استحبوا الکفر علی الایمان ط ومن یتولھم منکم “ اور ان کو مسلمانوں کے رازوں پر مطلع کرے اور ان کے ساتھ رہنے کو ہجرت اور جہاد پر ترجیح دے ” فاولئک ھم الظلمون “ کیونکہ اس وقت اسی کا ایمان معتبر تھا جس نے ہجرت کی ہو۔ پس یہی معنی ہے اللہ تعالیٰ کے فرمان ” فاولئک ھم الظلمون “ کا۔
Top