Tafseer-e-Baghwi - At-Tawba : 43
عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ١ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ
عَفَا : معاف کرے اللّٰهُ : اللہ عَنْكَ : تمہیں لِمَ : کیوں اَذِنْتَ : تم نے اجازت دی لَهُمْ : انہیں حَتّٰي : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : ظاہر ہوجائے لَكَ : آپ پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے وَتَعْلَمَ : اور آپ جان لیتے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
خدا تمہیں معاف کرے۔ تم نے پیشتر اس کے کہ تم پر وہ لوگ بھی ظاہر ہوجاتے جو سچے ہیں اور وہ بھی تمہیں معلوم ہوجاتے جو جھوٹے ہیں انکو اجازت کیوں دی ؟
43۔” عفا اللہ عنک “ عمرو بن میمون (رح) فرماتے ہیں کہ وہ کام ایسے ہیں جو آپ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کیے ہیں (1) منافقین کو اجازت دینا (2) بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینا تو اللہ تعالیٰ نے دونوں جگہ عتاب فرمایا ۔ سفیان بن عینیہ (رح) فرماتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کی اس مہربانی اور لطف کو تو دیکھو کہ ابتداء معافی سے کی ہے پھر عار دلائی ہے اور بعض نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (علیہ السلام) کی عزت کی ہے اور آپ (علیہ السلام) کا مقام بلند کیا ہے اور بعض نے کہا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے لیے دائمی عفو کریں۔” لم اذنت لھم “ پیچھے رہ جانے کی ” حتیٰ یتبین لک الذین صدقوا “ اپنے عذروں میں ” و تعلم الکذبین “ یعنی آپ (علیہ السلام) جان لیں کہ کون اپنا عذر بیان کرنے میں سچے ہیں اور کن کو کوئی عذر نہ تھا۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس دن آپ (علیہ السلام) منافقین کو نہ جانتے تھے۔
Top