Tafseer-e-Baghwi - At-Tawba : 66
لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ١ؕ اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآئِفَةٍ مِّنْكُمْ نُعَذِّبْ طَآئِفَةًۢ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ۠   ۧ
لَا تَعْتَذِرُوْا : نہ بناؤ بہانے قَدْ كَفَرْتُمْ : تم کافر ہوگئے ہو بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : تمہارا (اپنا) ایمان اِنْ : اگر نَّعْفُ : ہم معاف کردیں عَنْ : سے (کو) طَآئِفَةٍ : ایک گروہ مِّنْكُمْ : تم میں سے نُعَذِّبْ : ہم عذاب دیں طَآئِفَةً : ایک (دوسرا) گروہ بِاَنَّهُمْ : اس لیے کہ وہ كَانُوْا : تھے مُجْرِمِيْنَ : مجرم (جمع)
بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو۔ اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں تو دوسری جماعت کو سزا بھی دینگے۔ کیونکہ وہ گناہ کرتے رہے ہیں۔
66 ۔” لا تعتدروا ا قد کفر تم بعد ایمانکم “ اگر یہ اعتراض ہو کہ وہ تو پہلے سے ہی مومن نہ تھے۔ پھر ان کو یہ کیسے کہا کہا ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے ہو ؟ تو جواب یہ ہے کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کو ظاہر کرنے کے بعد کفر کو ظاہر کیا ہے ” ان نعف عن طائفۃ منکم ‘ ‘ یہاں طائفہ سے ایک شخص مراد ہے۔” نعذب طائفۃ بانھم کانوا مجرمین “ استہزاء کی وجہ سے اور عاصم نے ( نعف) نون اور اس کے زبر اور فاء کے پیش کے ساتھ پڑھا ہے۔ (نعذب) نون کے ساتھ اور دال کی زیر پر ( طائفہ) کے زبر اور دیگر حضرات نے (یعف) یاء اور اس کے پیش اور فاء کے زبر کے ساتھ ( تعذب) تاء اور ذال کے زبر کے ساتھ ( صائفۃ) مرفع نائب فاعل ہونے کی بناء پر پڑھا ہے۔ محمد بن اسحاق (رح) فرماتے ہیں کہ ان میں سے ایک شخص مخشی بن حمید اشجعی کی تو قبول کی گئی ۔ کہا گیا ہے کہ یہ شخص ہنستا تھا لیکن ان کی گفتگو میں حصہ نہ لیتا تھا اور ان کے ایک طرف ہو کر چل رہا تھا اور ان کی بعض باتوں کا انکار بھی کیا تھا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس نے اپنے نفاق سے توبہ کرلی اور کہا اے اللہ ! میں ہمیشہ ایک ایسی آیت سنتا جو مجھ پر پڑھی جاتی تھی اس سے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے اور دل کمزور ہوجاتے۔ اے اللہ ! تو وفات اپنے راستے میں شہادت کے ساتھ کر کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ میں نے اس کو غسل دیا ، میں نے اس کو کفن دیا ، میں نے اس کو دفن کیا ۔ تو یہ یمامہ کی جنگ میں شہید ہوئے۔ اس جنگ میں شہید ہر شخص کو لاش ملی سوائے ان کے۔
Top