Tafseer-e-Baghwi - At-Tawba : 92
وَّ لَا عَلَى الَّذِیْنَ اِذَا مَاۤ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ١۪ تَوَلَّوْا وَّ اَعْیُنُهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَؕ
وَّلَا : اور نہ عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اِذَا : جب مَآ اَتَوْكَ : جب آپکے پاس آئے لِتَحْمِلَهُمْ : تاکہ آپ انہیں سواری دیں قُلْتَ : آپ نے کہا لَآ اَجِدُ : میں نہیں پاتا مَآ اَحْمِلُكُمْ : تمہیں سوار کروں میں عَلَيْهِ : اس پر تَوَلَّوْا : وہ لوٹے وَّاَعْيُنُهُمْ : اور ان کی آنکھیں تَفِيْضُ : بہہ رہی ہیں مِنَ : سے الدَّمْعِ : آنسو (جمع) حَزَنًا : غم سے اَلَّا يَجِدُوْا : کہ وہ نہیں پاتے مَا : جو يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کریں
اور نہ ان (بےسروسامان) لوگوں پر (الزام) ہے کہ تمہارے پاس آئے کہ ان کو سواری دو اور تم نے کہا کہ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس پر تم کو سوار کروں تو وہ لوٹ گئے اور اس غم سے کہ انکے پاس خرچ موجود نہ تھا۔ انکی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔
آیت نمبر 92:” ولا علی الذین اذا مآ اتو ک لتحملھم “ مطلب یہ ہے کہ نہ پہلے لوگوں پر کوئی سبیل ہے اور نہ ان لوگوں پر جو آپ (علیہ السلام) کے پاس آئے۔ یہ سات افراد تھے۔ ان کا نام کثرت سے رونے والے پڑگیا۔” بکائین “ معقل بن یسار ؓ ‘ صنحر بن خنسائ ‘ عبد اللہ بن کعب انصاری ‘ عبلہ بن زید انصاری ‘ سالم بن عمیر ‘ ثعلبۃ بن غنمۃ ‘ عبد اللہ بن مغفل مزنی ؓ یہ حضرات نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ‘ اے اللہ کے رسول ! (ﷺ) بیشک اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ (علیہ السلام) کے ساتھ نکلنے کا حکم دیا ہے ‘ ہمیں سوار کردیں۔ مفسرین رحمہم اللہ کا اس لفظ ” لتحملھم “ کے معنی میں اختلاف ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے سوال کیا کہ ان کو جانوروں پر سوار کردیں اور بعض نے کہا ہے کہ انہوں نے یہ سوال کیا تھا کہ ان کو پیوند لگے موزوں اور گھسے ہوئے جوتوں پر سوار کردیں یعنی دے دیں تاکہ آپ (علیہ السلام) کے ساتھ جنگ میں شریک ہو سکیں تو نبی کریم ﷺ نے ان کو جواب دیا جس کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ” قلت لآ اجد مآ احملکم علیہ تولوا “ روتے ہوئے ” واعینھم تفیض من الدمع حزنا الا یجدوا ما ینفقون “
Top