Tafseer-e-Baghwi - At-Tawba : 95
سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَیْهِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْهُمْ١ؕ فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمْ١ؕ اِنَّهُمْ رِجْسٌ١٘ وَّ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
سَيَحْلِفُوْنَ : اب قسمیں کھائیں گے بِاللّٰهِ : اللہ کی لَكُمْ : تمہارے آگے اِذَا : جب انْقَلَبْتُمْ : واپس جاؤ گے تم اِلَيْهِمْ : ان کی طرف لِتُعْرِضُوْا : تاکہ تم در گزر کرو عَنْھُمْ : ان سے فَاَعْرِضُوْا : سو تم منہ موڑ لو عَنْھُمْ : ان سے اِنَّھُمْ : بیشک وہ رِجْسٌ : پلید وَّمَاْوٰىھُمْ : اور ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم جَزَآءً : بدلہ بِمَا : اس کا جو كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : وہ کماتے تھے
جب تم ان کے پاس لوٹ کر جاؤ گے تو تمہارے روبرو خدا کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے درگزر کرو۔ سو ان کی طرف التفات نہ کرنا یہ ناپاک ہیں اور جو کام یہ کرتے رہے ہیں ان کے بدلے ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔
آیت نمبر 95: جب تم ان کی طرف جہاد سے لوٹو گے ” لتعرضوا عنھم “ تاکہ تم ان سے در گزر کرو۔ ” فاعرضوا عنھم “ ان کو چھوڑ دو اور جو انہوں نے اپنے لیے نفاق کو اختیار کیا ہے ” انھم رجس “ یعنی بیشک ان کا عمل بہت برا ہے۔” وما وھم “ آخرت میں ” جھنم جزآء م بما کانوا یکسبون “ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت جد بن قیس اور معتب بن قشیر اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ یہ اسی (0 8) منافقین تھے جب نبی کریم ﷺ واپس تشریف لائے تو فرمایا ان کے ساتھ نہ بیٹھنا اور ان سے بات بھی نہ کرنا اور مقاتل (رح) فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ اس نے نبی کریم ﷺ کے لیے اللہ کی قسم کھائی کہ اس کے بعد کسی جنگ سے پیچھے نہ رہے گا اور مطالبہ کیا کہ آپ (علیہ السلام) اس سے راضی ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
Top