بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Yunus : 1
الٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ
الٓرٰ : الف لام را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب الْحَكِيْمِ : حکمت والی
الف۔ لام ۔ را (حروف مقطعات ۔ جن کے معنی کا علم اللہ کو ہے۔ ) یہ حمکت (علم۔ عقل۔ سمجھ) سے بھرپور کتاب کی آیتیں ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 2 الحکیم (وہ پکی چیز جس کے اندر ایسی پختگی ہو جس میں کبھی بدل جانے کا خوف نہ ہو یعنی علم، عقل اور سمجھ ۔ عجب (تعجب، حیرت) ۔ اوحینا (ہم نے وحی کی، وحی کے معنی اشارے کے بھی آتے ہیں) ۔ انذر (ڈرادے۔ کسی برے انجام سے ڈرانا) بشر (خوش خبری دے دیجیے) قدم صدق۔ صدق یعنی ٹھوس سچائی، قدم صدق، مرتبہ، کامیابی اور ترقی سحر (جادو کرنے والا، جادوگر) مبین (کھلی ہوئی واضح بات) تشریح : آیت نمبر 1 تا 2 سورئہ یونس قرآن کریم کی دسویں سورت ہے۔ مکہ مکرمہ میں اس زمانہ میں نازل ہوئی جب نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی دعوت و تبلیغ کی مخالفتا ور دشمنی میں کفار و مشرکین شرافت اور انسانیت کی حدود سے بہت دور نکل چکے تھے۔ یہ بہت نازک وقت تھا جس میں نبی کریم ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام کے زعم و ہمت کو سہارے کی ضرورت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اپنے نبی ﷺ اور صحابہ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ جو بھی حالات پیش آ رہے ہیں کوئی ایسے نئے حالات نہیں ہیں بلکہ تمام انبیاء کرم (علیہ السلام) کے ساتھ یہی سب کچھ ہوتا رہا ہے اور قیامت تک جب بھی دین کی سچائیوں کی طرف بلایا جائے گا تو یہی مشکلات پیش آئیں گی۔ ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ باطل کے خلاف ڈٹ کر عظیم جرأت و ہمت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی راستے سے دین و دنیا کی تمام بھلائیاں نصیب ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا مختصر، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذرا تفصیل سے اور حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کر کے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہر نبی کے ساتھ دو باتیں ضرور پیش آئی ہیں۔ (1) اللہ کا دین پہنچانے میں مشکلات، صہبتیں اور پریشانیاں اور (2) دوسری بات یہ کہ کفار و مشرکین کی بربادی اور اہل ایمان کی کامیابی و کامران۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو انبیاء کرام علیہم الاسلام کے راستے پر چل کردیں و دنیا کی کامیابی عطا فرمائے۔ (آمین) سورئہ یونس کی ابتدائی دو آیتوں میں چار باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ 1) سورة بقرہ اور سورة آل عمران کی طرح سورة یونس کی ابتدا بھی حروف مقطعات سے کی گئی ہے جس کی وضاحت سورة بقرہ و آل عمران کی سورتوں کے آغاز میں کردی گئی ہے تاہم اس جگہ صرف اتنی بات کو سمجھ لنیا کافی ہے کہق رآن کریم کی انتیس سورتوں کی ابتداء حروف مقطعات سے کی گئی ہے۔ ان تمام حروف کے معنی نہیں کئے جاتے۔ کوٓنکہ ان حروف سے متعلق نہ تو صحابہ کرام نے سوال کیا ہے نہ مخالفین نے ان حروف پر کسی حیرت اور تعجب کا اظہار کیا ہے اور سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بھی ان کے متعلق کچھ ارشاد نہیں فرمایا اسی لئے مفسرین عام طور پر یہ فرماتے ہیں کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان حروف سے کیا مراد ہے … کوئی خاص روایت تو نہیں ہے ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی ﷺ کو ان کے معنی بتا دیئے ہوں۔ بعض اکابر نے سورتوں کے مفہوم کو سامنے رکھ کر ان حروف کے معنی متعین کرنے کی مخلصانہ کوشش کی ہے لیکن آخر میں ان کے نوک قلم پر یہی بات آگئی کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان حروف سے کیا مراد ہے ؟ ان حروف کے کیا معنی ہیں ؟ ہمیں ان پر غور کرنے کے بجائے اس بات پر ایمان رکھنا چاہئے کہ جب نبی کریم ﷺ نے ہی ان حروف کے معنی و مراد کی وضاحت نہیں فرمائی اور صحابہ کرام نے بھی نہیں پوچھا تو یہ حروف اللہ ہی کو طرف سے ہیں اور وہی ان کے معنی اور مراد سے واقف ہے۔ 2) دوسری بات یہ ہے کہ اس سورت کی ابتدا ” تلک ایت الکتاب الحکیم “ سے کی گئی ہے۔ یعنی یہ آیتیں کتاب حکیم کی آیتیں ہیں … جس طرح قرآن کے لئے بہت سے الفاظ آئے ہیں اسی طرح یہ بھی قرآن کریم کا ایک نام ہے۔ ” کتاب حکیم “ یعنی وہ کتاب جس میں تمام انسانوں کی رہنمائی کیلئے وہ پر حمکت اصول بیان فرمائے گئے ہیں جو انتہائی مضبوط، مستحکم اور حکمت و دانش سے بھرپور ہیں۔ یہ کتاب کوئی معمولی کتاب نہیں ہے بلکہ وہ عظیم کتاب ہے جس میں قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے دین و دنیا کی تمام عظمتیں، نعمتیں اور سربلندیاں پوشیدہ ہیں۔ تہذیب و تمدن، معاشرت اور معیشت، عقائد، عبادات ، معاملات اور سیاسیات عالم کے رہبر و رہنما اصول ارشاد فرما دیئے گئے ہیں۔ 3) تیسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ کفار و مشرکین انبیاء کرام کی بشریت کا یہ کہہ کر انکار کرتے رہے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسا آدمی جو ان ہی کی طرح گوشت پوست کا انسان ہے، نو مہینے ماں کے پیٹ میں رہ کر اس دنیا میں آیا ہے۔ جو ان ہی میں پلا بڑھا ہے جو کھاتا پیتا ہے، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، روتا بھی ہے اور ہنستا بھی ہے۔ جو بیوی بچے بھی رکھتا ہے … اللہ کا نبی اور رسول کیسے ہو سکتا ہے ؟ اگر اللہ کو نبی اور رسول بنا کر بھیجنا ہی تھا تو کسے فرشتے کو بھیج دیا ہوتا یا آسمان سے اچانک کوئی شخصیت نمودار ہوتی اور ہم اس پر ایمان لاتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے پیغمبروں کی بشریت کا انکار کفر کا مزاج ہوا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعدد مقامات پر اس کا بہت سادہ اور پر حکمت ایک ہی جواب دیا ہے کہ اس میں تعجب اور حیرت کی کو سنی بات ہے کہ ہم نے اپنا کلام ایک انسان کے ذریعہ پہنچایا ہے جو تمہیں برے اعمال کے خراب نتائج سے ڈراتا ہے اور نیک اعمال کے نتیجے اور جنت اور اس کی راحتوں کی خوش خبری سناتا ہے۔ جس طرح پہلی امتوں نے نبیوں کی بشریت کا انکار کیا اسی طرح نبی ﷺ پر بھی یہی اعتراض کیا گیا۔ اللہ نے متعدد مقامات پر خود نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سے یہ کہلوا دیا کہ اے نبی ﷺ آپ ان سے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیجیے کہ میں بھی تم جیسا ایک بشر ہوں۔ میری خصوصیت یہ ہے کہ میری طرف اللہ کی وحی آتی ہو جس کی میں خود بھی اتابع و پیروی کرتا ہوں اور دوسروں کو بھی اسی وحی کی طرف بلاتا ہوں اور اس کی پیروی پر آمادہ کرتا ہوں۔ 4) ان آیات میں چوتھی بات یہ فرمائی گی ہے کہ کفار و مشرکین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ جب بھی اللہ کے پیغمبروں نے اللہ کا کلام پیش کیا تو اس کو جادو کا نام دیا اور اس کو پہنچانے والوں کو جادوگر کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف ارشاد فرمادیا ہے کہ جادو کرنا، جادو ساکھنر اور سکھانا سب کفر کی باتیں ہیں … جادو کیا ہے ؟ محض وقتی طور پر نظر بندی، نظروں کا فریب … اسکے برخلاف اللہ کا کلام ایک سچائی ہے، روشنی ہے۔ جادو کا اثر محض تھوڑی دیر تک رہتا ہے۔ جب جادو ختم ہوجاتا ہے تو وہی چیزیں جو سانپ اور اژدھے نظر آتے ہیں معمولی رسیاں اور لکڑیاں رہ جاتی ہیں ۔ اس کے برخلاف اللہ کا کلام وہ ہے کہ جب ایک دفعہ دلوں میں آجاتا ہے اور اس کا رنگ دلوں پر چڑھ جاتا ہے تو پھر وہ رنگ کبھی نہیں اترتا۔ فرعون کے دربار میں جب جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینک کر ان کو نظر بندی کے ذریعہ سانپ اور اژدھوں کی شکل میں دکھایا … تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے اپنا عصا کو پھینکا اور وہ اصلی پھنکارتا ہوا اژدھا نظر آنے لگا تو سارے جادو گر ڈر گئے اور سمجھ گئے کہ یہ محض نظروں کا دھوکہ نہیں ہے بلکہ معجزہ ہے۔ وہی جادوگر جو انعام و اکرام کے لالچ میں اپنے ادو کا کمال دکھا رہے تھے اللہ کے سامنے سجدہ میں گر گئے اور رب موسیٰ اور رب ہارون پر ایمان لے آئے … جب ان جادوگروں کے دلوں میں ایمان موجزن ہوگیا تو فرعون کی ہر دھمکی کے سامنے وہ ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ … یہی اللہ کا رنگ ہے جب یہ دلوں پر چڑھ جاتا ہے تو پھر اس کا رنگ نکھرتا تو ہے مٹتا نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے کفار و مشرکین کو صاف صاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ جادو ایک بےحقیقت چیز ہے۔ وقتی دھوکہ، فریب اور نظر بندی ہے اس کا مقابلہ اللہ کے کالم سے کرنا اور اس کلام سے کرنا جو کلام سراسر سچائی ہے، حقیقت ہے، نور ہے … اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ جو لوگ اس کلام رباین پر ایمان لائیں گے ان کو دنیا و آخرت میں عزت کا مقام نصیب ہوگا۔
Top