Baseerat-e-Quran - Yunus : 11
وَ لَوْ یُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْ١ؕ فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر يُعَجِّلُ : جلد بھیجدیتا اللّٰهُ : اللہ لِلنَّاسِ : لوگوں کو الشَّرَّ : برائی اسْتِعْجَالَھُمْ : جلد چاہتے ہیں بِالْخَيْرِ : بھلائی لَقُضِيَ : تو پھر ہوچکی ہوتی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف اَجَلُھُمْ : ان کی عمر کی میعاد فَنَذَرُ : پس ہم چھوڑ دیتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہماری ملاقات فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : وہ بہکتے ہیں
اور اگر اللہ بھی خرابی پہنچانے میں جلدی کرتا جس طرح وہ بھلائی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی عمل کی مہلت ختم کردی جاتی۔ پھر وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں کھتے ان کو ہم ان کی سرکشی میں چھوڑ دیتے ہیں تاکہ وہ اسی میں بھٹکتے رہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 11 تا 12 یعجل (وہ جلدی بھیجتا ہے) استفجال (وہ جلدی مانگتے ہیں) نذر (ہم چھوڑ دیتے ہیں) طغیان (سرکشی، نافرمانی) یعمھون (وہ بھٹکتے ہیں، گھومتے ہیں) کشفنا (ہم نے کھول دیا (تہس نہس کیا) مسرفین (حد سے بڑھ جانے والے) تشریح : آیت نمبر 11 تا 12 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی مقامتا پر ارشاد فرمایا ہے کہ اس نے انسان کو بہت سی عظمت عطا فرمائی ہیں روحانی بھی اور جسمانی بھی۔ روحانی تو ایسی کہ اس کو فرشتوں کا مسجود بنا دیا تمام فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ انسان کی عظمت کے سامنے سب کے سب سجدہ کریں۔ جب شیطان نے انسان کی عظمت کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا تو اس کو قیامت تک اپنی بارگاہ سے نکال دیا گیا۔ اسی طرح جسمانی اعتبار سے بھی اس کو ” احسن تقویم “ یعنی بہترین سانچوں میں ڈھال کر بنایا ہے خشکی کے دشوار گذار راستوں کو طے کرنے سمندر کی گہرائیوں میں اترنے، پہاڑوں کے سینے چیرنے اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے کا بڑا حوصلہ اور ہمت ہے لیکن دوسری طرف اس کی کچھ فطری کمزوریاں بھی ہیں مثلاً جلدی بازی کرنا اور جلد از جلد کسی نتیجے کو حاصل کرنے کی خواہش کرنا اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ ذرا کوئی خوشی مل گئی تو چہرہ کھل اٹھا۔ دل اسی خوشی میں مگن ہوگیا اور اگر اس پر کوئی مصیبت آن پڑی تو اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے اور کروٹیں بدل بدل کر ہر پہلو پر اللہ کو یاد کرنا شروع کردیا۔ جب وہ حالات کے بھنور سے نکل جاتا ہے تو پھر سے اپنی شرارتوں میں بدمست ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے خالق ومالک کو بھول کر کفر و شرک تک میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جب نبی کریم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا اور مکہ کے کفار کو بت پرستی اور من گھڑت مذہبی رسموں، جہالت کی تاریکیوں اور آپس کی خوں ریزیوں سے روکنے اور دین اسلام پر عمل کرنے کی دعوت دی گئی اپنے ہی غیر بن گئے۔ نبی کریم ﷺ اور آپ کے جاں نثاروں پر مصائب کے پہاڑ توڑ دیئے گئے۔ طرح طرح سے اذیتیں اور تکلیفیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے جاں نثاروں کو مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ آپ کو مدینہ منورہ ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گذارا تھا کہ مکہ میں شدید قحط پڑگیا۔ مکہ کے لوگوں کو شدید اذیت ناک حالات سے گذرنا پڑا یہاں تک کہ جب کھانے کو کچھ نہ ملا تو مردار جانور تک کھانے پر مجبور ہوگئے۔ جب حالات شدید تر ہوگئے اور قحط نے چاروں طرف سے گھیر لیا تو کفار مکہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ہم پر یہ ساری آفتیں صرف اس لئے آرہی ہیں کہ ہم نے حضرت محمد ﷺ کو ہر طرف ستایا اور اس نعمت کی قدر نہ کی۔ چناچہ ابوسفیان جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے ان کی قیادت میں ایک وفد مدینہ بھیجا گیا۔ ابوسفیان اور ان کے ساتھیوں نے مدینہ پہنچ کر مکہ کے لوگوں کی شدید تکالیف اور قحط کا تذکرہ کیا۔ نبی رحمت ﷺ نے اس موقع پر ان کے ظلم و ستم کو نظر انداز کرتے ہوئے صحابہ کرام سے فرمایا کہ مکہ والوں کی ہر ممکن مدد کی جائے۔ روایات میں آتا ہے کہ صحابہ کرام نے فقر و فاقہ اور تنگ دستی کے باوجود ہر ممکن مدد کی اور امدادی سامان جمع کر کے مکہ والوں کے لئے بھیجا۔ نبی مکرم ﷺ کفار مکہ کی تکلیفوں پر بےچین ہوگئے۔ یقینا آپ نے اللہ سے دعا بھی کی ہوگی۔ بہرحال جب مکہ والوں پر تکالیف اور قحط کی شدت ختم ہوگئی تو انہوں نے اپنے کفر و شرک میں اور شدت اختیار کرلی۔ دلوں کی نرمی کے بجائے ان کے دل اور بھی سخت ہوگئے۔ تو یہ ایک انسانی فطرت ہے کہ جب وہ کسی بلا اور مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے تو اللہ کو پکارتا ہے۔ روتا ہے اور چلاتا ہے اسے کسی کروٹ چین نہیں آتا۔ لیکن جیسے ہی حالات درست ہوجاتے ہیں تو وہ پھر سے اپنی سرکشی اور نافرمانی میں لگ جاتا ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ اللہ تو اپنے بندوں پر بہت ہی رحیم و کریم ہے اور حلیم بھی ہے کہ اپنے بندوں کے ہر گناہ پر فوراً ہی گرفت نہیں کرتا بلکہ ان کو مہلت اور ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے تاکہ وہ سنبھل جائیں۔ حالانکہ اللہ کی قدرت سے یہ باہر نہیں ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کو پکڑنے پر آئے تو کوئی اس سے چھڑا نہیں سکتا مگر وہ حکیم، رحیما ور حلیم لوگوں کو سنبھلنے اور راستہ تلاش کرنے کا پورا پوا موقع عطا فرماتا ہے۔ اس موقع پر غور کرنے کی بات ہے کہ یہ تو کفار کا اندازہ زندگی ہے کہ جب ان پر کوئی آفت اور مصیبت آتی ہے تو وہ روتے اور چلاتے ہیں اپنے بتوں کو چھوڑ کر اللہ ہی کو پکارنے لگ جاتا ہے لیکن ہمارا حال بھی تو اس سے مختلف نہیں ہے۔ جب ہم زندگی کے پرپیچ راستوں میں پھنس جاتے ہیں تو دن رات اللہ کو پکارتے ہیں روتے چلاتے اور لوگوں سے دعاؤں کی درخواست کرتے ہیں لیکن جب ہم ان مصائب اور مشکلات سے باہر آجاتے ہیں تو ہم بھی اللہ کی رحمت اور اس کے کرم کو بھول کر مختلف اسباب کی تعریفیں کرنے لگتے ہیں۔ ایک بیمار کو جب صحت مل جاتی ہے تو وہ ڈاکٹروں کی تعریف کرنے لگتا ہے کہ فلاں ڈاکٹر یا حکیم صاحب نے ایسی دوا دی کہ مجھے دوبارہ زندگی مل گئی اور میں صحت مند ہوگیا۔ اگر کسی مقدمہ میں پھنس گئے تو اس کی تعریف کرنے لگتے ہیں کہف لاں وکیل صاحب نے ایسا مقدمہ لڑا کہ فریق مخالف کے چھکے چھوٹ گئے اور میں مقدمہ جیت گیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ایک مومن جس کا اللہ پر کامل یقین ہے جو اپنے معاملات کے لئے خود بھی دعائیں کر رہا تھا اور دوسروں سے بھی کرا رہا تھا کامیایب اور صحت کے بعد جب وہ غیر اللہ کی تعریف کرتا ہے تو وہ اللہ کو بھول جاتا ہے جس نے صحت اور کامیابی عطا فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو کفر کے اس مزاج سے دور ہی رکھے اور ہمیں ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) ان آیات میں یہی بتایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے وہ اپنے رحم و کرم میں جتنی جلدی کرتا ہے اگر ہر ایک کو سزا دینے میں بھی جلدی کرنے لگے تو پھر انسان کا ٹھکانا کہاں ہوگا۔ انسان نافرمانیوں اور زیادتیوں میں حد سے بڑھ جاتا ہے لیکن اس سب کے باوجود وہ رحیم و کریم ہر ایک پر اپنے انعام و کرم کی بارشیں برساتا رہتا ہے۔
Top