Baseerat-e-Quran - Yunus : 34
قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَآئِكُمْ مَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ١ؕ قُلِ اللّٰهُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
قُلْ : آپ پوچھیں هَلْ : کیا مِنْ : سے شُرَكَآئِكُمْ : تمہارے شریک مَّنْ : جو يَّبْدَؤُا : پہلی بار پیدا کرے الْخَلْقَ : مخلوق ثُمَّ يُعِيْدُهٗ : پھر اسے لوٹائے قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ يَبْدَؤُا : پہلی بار پیدا کرتا ہے الْخَلْقَ : مخلوق ثُمَّ : پھر يُعِيْدُهٗ : اسے لوٹائے گا فَاَنّٰى : پس کدھر تُؤْفَكُوْنَ : پلٹے جاتے ہو تم
(اے نبی ﷺ آپ کہہ دیجیے کیا تمہارے شرکاء میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو (پہلی مرتبہ) پیدا کر کے پھر اس کو دوبارہ پیدا کر دے۔ آپ کہہ دیجیے اللہ وہ ہے جس نے (ہر چیز کو) پیدا کیا پھر وہ دوبارہ بھی پیدا کرے گا۔ پھر تم کہاں بہکے جا رہے ہو۔
لغات القرآن آیت نمبر 34 تا 36 یبدا (وہ ابتدا کرتا ہے) یعید (وہ لوٹاتا ہے، دوبارہ کرتا ہے) الخلق (مخلوق ، پیدا کرنا) احق (زیادہ حق دار ہے) ان یتبع (یہ کہ اس کی پیروی کی جائے، کہا مانا جائے) امن (یا وہ شخص) لایھدی (راستہ نہیں دکھاتا) تحکمون (تم فیصلہ کرتے ہو) الظن (گمان، خیال، بےبنیاد بات) لایغنی (بےنیاز نہیں کرتا، کام نہیں کرتا) تشریح : آیت نمبر 34 تا 36 آج کے انسان کو ان ترقیات پر بڑا ناز ہے جو اس نے ایجاد کی ہیں۔ فضاؤں پر ہواؤں پر زمین و آسمان کی گہرائیوں پر اس کا کنٹرول ہے علمی اور تحقیقی انداز سے ان کی یہ کامیابیاں قابل قدر ہیں جو اس نے حاصل کی ہیں دین اسلام بھی ان ترقیات کا مخالف نہیں ہے لیکن ان چیزوں کی ایجادات سے انسان، اس کی تہذیب اور اخلاق کو جو نقصان پہنچ رہا ہے یا آئندہ پہنچنے کا امکان ہے اسلام ان کی شدید مخالفت کرتا ہے کیونکہ انسان نے کائنات کی چیزوں کو ترتیب دے کر بہت سی نئی اختراعات کی ہیں۔ لیکن جن چیزوں سے یہ سب کچھ بنایا گیا ہے ان میں سے ایک چیز بھی انسان نے نہیں بنائی مثلاً اس کائنات میں مادہ اور قوت و طاقت یہ دو بنیادی چیزیں ہیں۔ ان دونوں میں سے کسی چیز کو بھی انسان نے پیدا نہیں کیا۔ اگر اللہ تعالیٰ مادہ اور قوت کو فنا کر دے تو انسان کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ آج کے انسان نے آوازوں ، صورتوں اور شکلوں کو لہروں میں تبدیل کر کے لاکھوں کروڑوں میل بیٹھے ہوئے آدمی تک پہنچا دیا ہے۔ لیکن وہ خود ان لہروں کا خلاق نہیں ہے۔ وہ شہروں کو ترتیب دے سکتا ہے لیکن اگر اللہ کا حکم آجائے تو وہ شہروں اور ملکوں کو تہس نہس کر کے رکھ سکتا ہے مثلاً ایک پورا علاقہ ہے نہایت سرسبز و شاداب ، بلند وبالا عمارتیں ہیں، انسانوں کی حفاظت کے سارے سامان ہیں لیکن اچانک زلزلہ آجائے یا پورا علاقہ زمین میں دھنس جائے یا اس پر سمندر کا پانی چڑھ آئے تو ساری قوتوں اور طاقتوں کے باوجود انسان کچھ بھی نہیں کرسکتا مجھے تو کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ایسا نہ ہو کہ آدھی دنیا سمندر کے نیچے آجائے اور انسانی تہذیب و ترقیات فنا ہوجائیں اور پوری قوت و طاقت کے دعوؤں کے باوجود انسان بےبس ہو کر رہ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان ایٓات میں ارشاد فرمایا ہے کہ کائنات کی ہر قوت و طاقت کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ وہی اس کو فنا کر کے دوبارہ پیدا کرے گا اس کے لئے نہ اول مرتبہ پیدا کرنا دشوار تھا اور نہ دوسری دفعہ یہ انسان کی بھول ہے کہ وہ اللہ کے خلاق ومالک ہونے کا اعتراف بھی کرتا ہے لیکن اپنی مرادیں پتھر کے ان بےجان بتوں یا مجبور انسانوں سے مانگتا ہے جو اللہ کے محتاج ہیں۔ فرمایا کہ کائنتا کی تخلیق میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہ انسان کی الٹی چال ہے کہ وہ اپنے حقیقی معبود کو چھوڑ کر غیر اللہ کے در سے آرزؤں کے پورا ہونے کی امید رکھتا ہے ہدایت کی امید ان سے رکھتا ہے جن کو خود اس راستہ کا علم نہیں ع ہے۔ اس طرح احبار، رھبان، مہنت، برہمن، گرو، یہ سب تو راستہ اور ہدایت کے لئے اللہ کے محتاج ہیں وہ کسی کو کیا راستہ دکھائیں گے۔ ان کے پیچھے چلنے کا انجام سوائے بھٹکنے کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ دوسری ایک خاص بات کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج جن سے ہدایت و رہنمائی کی امیدیں لئے ہوئے بہت سے لوگ ان گمراہوں کے پیچھے چل رہے ہیں یہ خود یقین پر قائم نہیں ہیں بلکہ ان کے قائم کئے ہوئے تصوراتی خاکے ہیں جن کو انسان اپنے ہاتھوں سے بناتا ہے اور ان کے سامنے جھک جاتا ہے اور اس طرح وہ خود اپنے قائم کئے ہوئے خیالات کی پرستش کر رہا ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ انسان جب تک ظن و گمان کے اس دائرے سے نکل کر اس اللہ کی طرف نہیں آتا جس نے ان تمام چیزوں کو پیدا کیا اور وہ ان میں سے ہر چیز کی حکمت و مصلحت سے اچھی طرح واقف ہے۔ اس وقت تک انسان بھٹکتا ہی رہے گا۔
Top