Baseerat-e-Quran - Yunus : 41
وَ اِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَ لَكُمْ عَمَلُكُمْ١ۚ اَنْتُمْ بَرِیْٓئُوْنَ مِمَّاۤ اَعْمَلُ وَ اَنَا بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر كَذَّبُوْكَ : وہ آپ کو جھٹلائیں فَقُلْ : تو کہ دیں لِّيْ : میرے لیے عَمَلِيْ : میرے عمل وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے عَمَلُكُمْ : تمہارے عمل اَنْتُمْ : تم بَرِيْٓئُوْنَ : جواب دہ نہیں مِمَّآ : اس کے جو اَعْمَلُ : میں کرتا ہوں وَاَنَا : اور میں بَرِيْٓءٌ : جواب دہ نہیں مِّمَّا : اس کا جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
(اے نبی ﷺ پھر اگر وہ آپ کو بھی جھٹلاتے ہیں تو کہہ دیجیے میرا عمل میرے لئے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لئے ہے اور جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہے
لغات القرآن آیت نمبر 41 تا 44 بریتون (وہ بری ہیں، ذمہ دار ہیں) یستمعون (وہ غور سے سنتے ہیں) تسمع (تو سنوائے گا) الصم (بہرے) العمی (ادھے) لایبصرون (وہ نہیں دیکھتے ہیں) لایظلم (وہ ظلم و زیادتی نہیں کرتا) تشریح :- آیت نمبر 41 تا 44 کفار و مشرکین ہر طرح کے حقائق اور سچائیوں کو جاننے کے باوجود جس طرح اپنے کفر و شرک پر ہٹ دھرمی، ضد اور تعصب پر جمے ہوئے تھے اور حق کی کسی بات کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔ بشریٰ تقاضا تھا کہ نبی مکرم ﷺ اس سے بد دل اور تنگ ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا اے نبی ﷺ ! آپ ان سے صاف صا کہہ دیجیے کہ میں جو کچھ کر ہا ہوں اس کا میں ذمہ دار ہوں لیکن عمل کی جس روش پر تم چل رہے ہو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کون حق پر ہے اور کون نہیں ہے ؟ اس کا فیصلہ بہت جلد ہوجائے گا۔ ان آیات میں یہ اشارہ بھی فرمایا دیا گیا کہ یہ لوگ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ جو لوگ کان رکھنے کے باوجود بہرے بن جائیں، آنکھیں ہوتے ہوئے ہر حق و صداقت کی بات سے اندھے بنے رہیں ان کو سنانا ارور دکھانا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ سنتا وہ ہے جو اپنے ضمیر و قلب کو لے کر آپس کے پاس آئے گا ۔ جس نے ہر نیک بات کو نہ سننے کا فیصلہ کرلیا ہو اور سننا ہی نہ چاہتا ہو اس کو ساری دنیا مل کر بھی سنانا اور دکھانا چاہے تو وہ سن نہیں سکتا دیکھ نہیں سکتا۔ ایسے اندھوں کو راستہ کیسے دکھایا جاسکتا ہے۔ اسی بات کو ایک جگہ قرآن کریم میں اس طرح فرمایا گیا ہے کہ ” بیشک اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک تبدیل نہیں کرتا جب تک وہ خود ہی اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کریں۔ “ اللہ تعالیٰ نے حق و صداقت اور گمرایہ کے ہر استہ کو کھول کر بیان کردیا ہے پھر بھی اگر کوئی ان چیزوں سے منہ پھیر کر چلتا ہے تو وہ خود ظالم ہے جو اپنے اوپر ظلم کر رہا ہے اس کا الزام اللہ رب العالمین کو نہیں دیا جاسکتا۔ اگر غور کیا جائے تو حقیقت سامنے آتی ہے کہ سننے کو تو جانور بھی سنتا ہے دیکھتا ہے لیکن وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے کے باوجود سوائے اپنے چارے اور کھانے پینے کے اور کسی طرف توجہ نہیں کرتا اس کو ہر حال میں اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے اس کو اچھے اور برے سے کوئی تعقل نہیں ہوتا یہی اس کی حیوانیت ہے۔ کفار اور مشرکین کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔ کہ وہ ایک سچائی کو جاننے کے باوجود اس لئے قبول نہیں کرتے کہ اس سے ان کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ کفار مکہ جو قرآن کریم کے سب سے پہلے مخاطب ہیں وہ نبی کریم ﷺ کی زندگی کے ایک ایک لمحہ سے واقف تھے بچپن، جوانی اور ادھیڑ عمری کی زندگی کے وہ کونسے اوقات تھے جو ان کے سامنے نہ گذرے ہوں انہیں معلوم تھا کہ نبی مکرم ﷺ نے کسی سے ایک لفظ تک نہیں پڑھا۔ آپ کی زبان سے ایسا کلام کبھی نہیں سنا گیا لیکن اچانک آپ کی زبان مبارک پر وہ کلام جاری ہوگیا جو اپنی شان کے اعتبار سے اس قدر بلند اور باعظمت تھا کہ اس کے سامنے ساری دنیا عاجز اور مجبور ہو کر رہ گئی تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ جس شخص نے پوری زندگی کبھی جھوٹ نہیں بولا وہ اللہ کے معاملے میں کیسے غلط بیانی کرسکتا ہے۔ نبی مکرم ﷺ کی دیانت، امانت اور صداقت سے وہ اچھی طرح واقف تھے لیکن اپنے رسم و رواج سے چمٹے ہوئے یہ لوگ کسی طرح اس سچائی کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔ اس سے یہ اصول سامنے آتا ہے کہ جب تک انسان کے اندر سے طلب پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک ساری دنیا مل کر بھی اس کو راہ ہدایت نہیں دکھا سکتی لیکن جب اندر سے اپنی اصلاح اور فکر آخرت کی طلب اور تڑپ پیدا ہوجاتی ہے تو پھر کبھی نہ کبھی اس کو ہدایت کی روشنی نصیب ہوجاتی ہے۔ اگر انسان اپنے دل و دماغ فکر و ذہن، کانوں اور آنکھوں پر وقتی مفادات کے پردے ڈال لیتا ہے تو پھر اس کو پوری روشنی کے باوجود کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
Top