Baseerat-e-Quran - Yunus : 50
قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُهٗ بَیَاتًا اَوْ نَهَارًا مَّا ذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَرَءَيْتُمْ : بھلا تم دیکھو اِنْ اَتٰىكُمْ : اگر تم پر آئے عَذَابُهٗ : اس کا عذاب بَيَاتًا : رات کو اَوْ نَهَارًا : یا دن کے وقت مَّاذَا : کیا ہے وہ يَسْتَعْجِلُ : جلدی کرتے ہیں مِنْهُ : اس سے۔ اس کی الْمُجْرِمُوْنَ : مجرم (جمع)
(اے نبی ﷺ آپ کہہ دیجیے کہ یہ تو بتائو اگر تمہارے اوپر اس کا عذاب رات یا دن کو آجائے (تو تم کیا کرسکتے ہو) یہ مجرم اس کے مانگنے میں جلدی کیوں مچا رہے ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 50 تا 53 ارء یتم (کیا تم دیکھتے ہو، کیا تمہیں خبر ہے، بھلا بتائو تو) بیات (رات کو، رات گزارنا) یستفعجل (وہ جلدی مچاتا ہے) آلئن (اب، اسی وقت) ذوقوا (چکھو) الخلد (ہمیشہ) تجزون (تم بدلہ دیئے جائو گے) یستنبونک (وہ آپ سے خبر پوچھتے ہیں، معلوم کرنا چاہتے ہیں ) ای و ربی (ہاں ہاں میرے رب کی قسم) تشریح :- آیت نمبر 50 تا 53 اللہ تعالیٰ کا دستور اور قانون یہ ہے کہ وہ انسانوں کی توبہ کو اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک موت کے فرشتے سامنے نہ آجائیں یعنی اس پر جاں کنی شروع نہ ہوجائے۔ لیکن جب موت کے فرشتے سامنے آجاتے ہیں تو پھر کسی طرح اس کی توبہ قبول نہیں کی جاتی۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا ہی رہتا ہے لیکن جب اس پر موت طاری کردی جاتی ہے یعنی اس کی جاں کنی کا وقت ہوتا ہے تو اس کے لئے توبہ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں فرعون کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اس کی تفصیل ارشاد فرمائی گی ہے کہ جب حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو سمندر کے اندر راستوں سے نکال کر دوسرے کنارے پر لے آئے۔ بعد میں فرعون اپنے لشکر کے ساتھ جب ان راستوں کے اندر پہنچ گیا جو اللہ نے حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے لئے سمندر میں راستے بنا دیئے تھے تو سمندر کا پانی آپس میں پھر مل گیا اور فرعون اور اس کے لشکری ڈوبنے لگے اس وقت فرعون کو عقل آئی اور اس نے کہا : امنت انہ لا الہ الا الذی امنت بہ بنوآاسرائیل و آنا من السلمین ترجمہ :- میں اس اللہ پر ایمان لاتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اس رب پر میں ایمان لاتا ہوں اور میں اللہ کے فرماں برداروں میں سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دستور کے مطابق فرعون کی توبہ کو قبول نہیں کیا کیونکہ جب ایمان لانے کا وقت تھا اس وقت تو وہ خود ہی معبود بنا ہوا تھا غرور تکبر اور کفر میں سب سے آگے تھا لیکن جب اس کو موت نظر آئی تو اس کو بنی اسرائیل کا پروردگار یاد آنے لگا۔ اللہ نے اس کی اس توبہ کو نامنظور فرما دیا۔ اس کے برخلاف حضرت یونس کی قوم کو جب اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ حضرت یونس اپنے اہل خانہ کے ساتھ یہ کہہ کر چلے گئے ہیں کہ اب تم اللہ کے عذاب کا انتظار کرو اور انہیں یقین ہوگیا کہ اگر ہم نے توبہ نہ کی تو واقعی اللہ کا عذاب ہمیں آ گھیرے گا۔ اس وقت پوری قوم نے اپنے کفر و شرک سے توبہ کی چونکہ عذاب آنے سے پہلے ہی انہوں نے توبہ کرلی تھی تو ان کی توبہ قبول ہوگئی ۔ اگر وہ عذاب آنے کے بعد توبہ کرتے تو ان کی توبہ قبول نہ کی جاتی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اسی دستور اور قانون کو بیان فرمایا ہے کہ آج یہ کفار مکہ جس عذاب الٰہی کو نظر انداز کر رہے ہیں اور اپنے کفر و شرک سے توبہ نہیں کرتے۔ اگر وہ عذاب آگیا تو پھر توبہ کے دروازے بند کردیئے جائیں گے۔ نبی کریم ﷺ جب کفار مکہ کے سامنے یہ ارشاد فرماتے کہ قیامت آنے والی ہے۔ اس دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور ان کو جزا اور سزا دی جائے گی۔ آپ فرماتے کہ اچھے اعمال پر اجر وثواب عطا کیا جائے گا لیکن برے اعمال پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔ آپ کے ارشادات کے جواب میں وہ آپ کی باتوں کا مذاق اڑاتے اور یہ کہتے کہ اے نبی ﷺ تم جس عذاب کی باتیں کرتے ہو وہ آخر کب آئے گا ؟ تم اس کو فوراً ہی ہمارے اوپر مسلط کیوں نہیں کرا دیتے ؟ اس طنز و استھزاء کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان سے واضح الفاظ میں کہہ دیجیے کہ صبح و شام کسی بھی وقت جب اللہ کا عذاب آئے گا نہ تو تم اس سے بچ سکو گے اور نہ اللہ کو عاجز و بےبس کرسکو گے۔ پھر تو اللہ کی طرف سے ایک ہی اعلان ہوگا کہ تم اب تک جو کچھ کرتے رہے ہو اس کا عذاب چکھو۔ فرمایا گیا کہ اے نبی ﷺ ! جب وہ آپ سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے تو آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کی قسم یہ سب کچھ برحق اور سچ ہے اللہ کو اس کے کرنے پر پوری قدرت و طاقت حاصل ہے۔ اللہ کا ہاتھ کوئی نہیں پکڑ سکتا۔ جب وہ کسی قوم کو ان کے برے اعمال کی سزا دیتا ہے تو اس کو کوئی روک نہیں سکتا اور اچھے اعمال پر بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے تو اس کو کوئی منع کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
Top