Baseerat-e-Quran - Yunus : 54
وَ لَوْ اَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِی الْاَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهٖ١ؕ وَ اَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ١ۚ وَ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر ہو اَنَّ : ہو لِكُلِّ نَفْسٍ : ہر ایک کے لیے ظَلَمَتْ : اس نے ظلم کیا (ظالم) مَا : جو کچھ فِي الْاَرْضِ : زمین میں لَافْتَدَتْ : البتہ فدیہ دے دے بِهٖ : اس کو وَاَسَرُّوا : اور وہ چپکے چپکے ہوں گے النَّدَامَةَ : پشیمان لَمَّا : جب رَاَوُا : وہ دیکھیں گے الْعَذَابَ : عذاب وَقُضِيَ : اور فیصلہ ہوگا بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
اور اگر ہر وہ شخص جس نے شرک کیا ہے اس کے پاس زمین بھر دولت بھی ہوگی تو (عذاب سے ان چھڑانے کے لئے) فدیہ میں دینے کو تیار ہوجائیگا اور جب وہ عذاب کو دیکھے گا تو اپنی شرمنگدی کو چھپانے کی کوشش کرے گا اور ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ کردیا جائیگا اور وہ ظلم نہ کئے جائیں گے۔
لغات القرآن آیت نمبر 54 تا 56 نفس (جان، ذات) ، افتدت (بدلہ دیا یعنی بدلہ میں دے دے گا) اسروا (انہوں نے چھپایا، وہ چھپائیں گے) الندامۃ (شرمندگی ، ندامت) راو (انہوں نے دیکھا، وہ دیکھیں گے) یحییٰ (وہ زندہ کرتا ہے) یمیت (وہ موت دیتا ہے، مارتا ہے) تشریح آیت نمبر 54 تا 56 یہ ساری کائنات اور اس کا ذرہ ذرہ اللہ نے پیدا کیا ہے وہی اس کا مالک ہے وہی نگہبان ہے اس نے اس دنیا کو ایک خاص وقت تک استعمال کرنے کی انسان کو اجازت دی ہے کہ وہ دنیا اور اس کے وسائل کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی روشنی میں استعمال کرے۔ لیکن اگر اس نے یہ سمجھ لیا کہ جو کچھ میرے پاس ہے میں اس کا مالک ہوں جس طرح چاہوں میں اس میں تصرف کرسکتا ہوں اس کو استعمال کرسکتا ہوں۔ اس تصور کے ساتھ ہی انسان کا مزاج بگڑنا شروع ہوجاتا ہے اور وہ دنیا کی ظاہری چمک دمک اور مال و دولت کی کثرت میں اس طرح مگن ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے اس مالک حقیقی کو بھول جاتا ہے جس نے یہ سب کچھ اس کو عطا کیا ہے۔ اللہ کے وسائل سے اللہ کی زمین پر وہ ظلم و زیادتی کرتا ہے، نافرمانیوں کا طریقہ شروع کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اصلاح کرنے اور ان کے بھولے ہوئے سبق کو یاد دلانے کے لئے اپنے پاکیزہ نفس باعظمت بندوں (انبیاء کرام) کو بھیجتا ہے مگر انسان کی غفلت کی انتہا یہ ہوجاتی ہے کہ وہ اللہ کے نبیوں کی بات جاننے اور ان کی اطاعت کرنے کے بجائے ان کا مذاق اڑانا شروع کردیتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنی دنیا اور آخرت کو برباد کر ڈالتا ہے۔ اگر وہ اپنے کفر و شکر سے توبہ کرلیتا ہے تو اس کی دنیا بھی بہتر ہوجاتی ہے اور آخرت بھی سنور جاتی ہے لیکن اس کی نافرمانی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کے عذاب کا شکار ہوجاتا ہے اور آخرت میں سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر شرمندگی ، حسرت اور افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا اور وہی دنیا کا مال و دولت جس پر وہ جان دیتا تھا وہ چاہے گا کہ یہ سب کچھ لے کر بھی اگر اللہ اس کو معاف کر دے تو یہ سودا گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا مگر آخرت میں یہ چیزیں اس کے کام نہ آسکیں گی۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اس طرح ارشاد فرمایا ہے کہ : انسان نے روئے زمین پر جو جو زیادتیاں اور ظلم کئے ہیں وہ چاہے گا کہ اس کا سب کچھ لے کر اس کو چھوڑ دیا جائے ۔ وہ شرمندہ ہوگا۔ لیکن اللہ تعالیٰ اس کی نافرمانیوں کے باوجود اس کے ساتھ پورا پورا انصاف فرمائیں گے اور کوئی زیادہ نہیں فرمائیں گے۔ اس کا وعدہ سچا وعدہ ہے۔ درحقیقت زندگی اور موت سب اس کے ہاتھ میں ہے اور اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ ایک دن وہ آئے گا جب تمام انسانوں کو اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اپنی نافرمانیوں، زیادتیوں اور ظلم و ستم کا حساب دینا ہوگا اور نج لوگوں نے اللہ و رسول کی اطاعت و فرماں برداری کی ہوگی ان کو بہترین انعامات سے نوازا جائے گا۔
Top