Baseerat-e-Quran - Yunus : 57
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ١ۙ۬ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّاسُ : لوگو قَدْ جَآءَتْكُمْ : تحقیق آگئی تمہارے پاس مَّوْعِظَةٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَشِفَآءٌ : اور شفا لِّمَا : اس کے لیے جو فِي الصُّدُوْرِ : سینوں (دلوں) میں وَهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے
اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آگئی ہے جو نصیحت ہے بیمار دلوں کے لئے شفاء ہے، ہدایت اور ایمان والوں کے لئے رحمت ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 57 تا 58 موعظۃ (نصیحت) شفآء (شفا، بہتری) الصدور (صدر) سینے ، دل) فلیفرحوا (پس انہیں خوش ہونا چاہئے) خیر (زیادہ بہتر) یجمعون (وہ جمع کرتے ہیں) تشریح : آیت نمبر 57 تا 58 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کے تمام انسانوں کو خطاب رکتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے لوگو ! تمہارے پروردگار نے تمہیں ایک ایسی کتاب ہدایت عطا فرما دی ہے جو قیامت تک تمام انسانوں کی رہبری اور رہنمائی کرتی رہے گی۔ اب اس کتاب کے بعد کسی اور کتاب ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔ نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام نے اس کتاب ہدایت پر عمل کر کے ساری دنیا میں وہ انقلاب برپا کردیا جس سے بیمار دلوں کو شفا مل گئی اور شکوک و شبہات، جہالت و گمراہی، غلط عقائد، بغض و حسد، نفاق وتکبر اور اخلقا رذیلہ میں پھنسے ہوئے انسانوں کو ہدایت کی وہ روشنی مل گئی جس نے ان کے تن مردہ میں دوبارہ جان ڈال دی تھی۔ قرآن کریم کی تو لاتعداد خوبیاں ہیں لیکن اس جگہ خصوصی طور پر چار خوبیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ 1) موعظۃ : یعنی قرآن کریم تمام انسانوں کے لئے ایک دل نشین، دل گداز انداز میں زندگی گذارنے اور بسر کرنے کے اصولوں کی وہ کتاب ہے جو رب العالمین کی طرف سے عطا فرمائی گئی ہے جو بغیر کسی جبر و ا اکراہ کے نصیحت ہی نصیحت اور بندوں کی خیر خواہی کا ذریعہ ہے۔ 2) شفاء لما فی الصدور : یعنی ظاہر و باطن ، دل و دماغ اور کفر و شرک جیسی روحانی بیماریاں جو دلوں کی دنیا کو اجاڑ کر کھ دیتی ہیں ان سے شفا کا ذریعہ یہ کتاب ہے۔ درحقیقت قرآن کریم ہر اعتبار سے سرچشمہ ہدایت ہے۔ اس سے جس طرح بھی فائدہ اٹھایا جائے وہ سرا سر شفاہی شفا ہے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ قرآن کریم کو پڑھ کر سمجھنا اور عمل کرنا یہ تو اصل مقصد ہے لیکن قرآن کریم کے ہر حرف پر دس نیکیاں اور درجات کا ملنا بھی ثابت ہے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص محض قرآن کریم کے الفاظ و حروف کو دیکھتا ہے اس پر بھی اجر وثواب کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کیپ اس کوئی صحابی تشریف لائے اور سینے میں درد کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا کہ قرآن کریم پڑھو اللہ اس تکلیف سے نجات عطا فرمائے گا۔ اسی طرح ایک موقع پر حضرت واثلہ بن اسقع نے حاضر خدمت ہو کر حلق میں تکلیف کی شکایت کی آپ نے ان سے بھی فرمایا کہ قرآن کریم کی تلاوت کرو اس سے شفا عطا کی جائے گی۔ قرآن کریم تمام ظاہری اورب اطنی بیماریوں کے لئے نسخہ شفا ہے۔ اس قرآن نے ان لوگوں کی زندگیوں کی کایا پلٹ دی تھی جو کفر و شرک میں ڈوب کر انسانیت اور اخلاق کے ہر اصول کو بھول چکے تھے۔ کفر و شرک ہی جن کی زندگی بن چکی تھی۔ لیکن تاریخ انسانی کا یہ عظیم واقعہ ہے جہالت و ظلم میں ڈوبے ہوئے یہ لوگ قرآن کریم کی برکت سے انسانیت کے دوست اور خیر خواہ بن گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے جو راہزن تھے وہ راہبر بن گئے اور کفر و شرک اور نفاق کی تاریکیوں میں بھٹکنے والے ساری دنیا کو ہدایت کی روشنی میں لانے کا ذریعہ بن گئے قرآن کریم ڈیڑھ ہزار سال پہلے بھی یہی تاثیر رکھتا تھا۔ آج بھی ہے اور قیامت تک رہے گا بات صرف عمل کرنے کی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے جاں نثار صحابہ کرام نے قرآن کریم اور اپنے نبی ﷺ کی سنت پر عمل کیا تو وہ ساری دنیا پر چھا گئے، ہر وقت و طاقت ان کی غلام بن کر رہ گئی۔ آج بھی ہماری نجات اور کامیابی اورب یماریوں کا علاج قرآن و سنت ہی میں پوشیدہ ہے۔ 3) ھدی : یعنی یہ قرآن حکیم ہدایت ہی ہدایت ہے۔ یہی وہ کتاب ہے جس نے ان تمام اصولوں کی وضاحت فرما دی ہے جن سے انسان گمرایہ سے نکل کر راہ ہدایت اختیار کرسکتا ہے۔ ہدایت یعنی راستہ دکھانا اور منزل تک پہنچانا یہی قرآن کریم کی تعلیمات کی برکت ہے۔ قرآن کریم یہ بھی بتاتا ہے کہ منزل تک پہنچنے کا راستہ کونسا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ منزل کہاں ہے۔ قرآن کریم تئیس سال (23) میں حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا نازل فرمایا گیا۔ قرآن کریم کی جو آیات بھی نازل ہوتیں نبی کریم ﷺ ان آیات کی مراد بتاتے اور ان آیات پر عمل کر کے صحابہ کرام کے سامنے زندگی کے اس نمونے کو پیش رفماتے جو بہترین نمونہ زندگی ہے۔ صحابہ کرام نے اس نمونہ زندگی کو اپنایا یہاں تک کہ بنی آخر الزماں خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے صحابہ کرام کو یہ سند عطا فرما دی کہ ” میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کا دامن بھی تھام لو گے راہ ہدایت حاصل کرلو گے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم جو سرا سر ہدایت ہے اس کا نور اسی وقت کھل سکتا ہے جب کہ ہم اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے کس آیت کا کیا مطلب بتایا اور کس طرح اس پر عمل کر کے دکھایا۔ صحابہ کرام جن کے سامنے قرآن کریم نازل ہوا اور ان آیات پر نبی کریم ﷺ کو عمل کرتے دیکھا انہوں نے قرآن و سنت پر اپنی زندگیوں کو اس طرح ڈھال لیا تھا کہ وہ خود دنیا کے لئے ہدایت و روشنی کا ذریعہ بن گئے تھے۔ لہٰذا ہدایت کا یہ اصول سامنے آیا کہ قرآن کریم سراسر ہدایت ہے۔ لیکن اس ہدایت کا مفہوم کیا ہے اس پر کیسے عمل کیا جائے اس کے لئے ہمیں نبی کریم ﷺ کے قول و عمل اور احکامات کو سامنے رکھنا ہوگا۔ پھر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ صحابہ کرام نے قرآن کریم اور سنت رسول پر کس طرح عمل کیا۔ یہی راہ ہدایت ہے۔ بعض وہ لوگ جو اپنی جہالت و نادانی سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ بس ہمیں قرآن کافی ہے اور سنت رسول اللہ ﷺ اکابرین ملت کی تشریحات کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے لوگ درحقیقت قرآن پر نہیں بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کے لئے قرآن کریم اور اس کی آیات کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں جو ہدایت نہیں بلکہ گمراہی ہے۔ مگر ان اندھیروں میں بھٹکنے والے ہر روشنی کا انکار کر کے زندگی بھر خود فریبی میں مبتلا رہتے ہیں۔ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی راہ ہدایت سے بھٹکانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کریم ایک مکمل کتاب ہے۔ اس کا نور کامل نور ہے۔ کوئی چیز باہر سے لا کر اس کو مکمل نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن قرآن کریم کا نور اور اللہ کی مراد کھل کر اس وقت تک سامنے نہیں آسکتی جب تک ہم نبی کرم ﷺ کے عمل اور حکم یعنی احادیث رسول ﷺ کو سامنے نہ رکھیں۔ آپ کا اسوہ حسنہ انسانیت کا کامل ترین نمونہ زندگی ہے لیکن اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں صحابہ کرام کی زندگیوں کو سامنے رکھنا ہوگا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے تئیس سال (23) میں ہر طرح کی تکلیفیں اٹھا کر لاکھوں صحابہ کرام کے ذہن و فکر کی جو تربیت فرمائی تھی ان صحابہ کرام کی زندگی بھی آپ کے طفیل کائنات میں بہترین نمونہ زندگی ہے۔ اس کو کسی حال میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ورنہ قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کو سمجھنا مشکل بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔ 4) قرآن کریم کی چوتھی صفت یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ یہ قرآن رحمت ہی رحمت ہے۔ قرآن کریم جس دور میں نازل ہوا اگر اس کو پیش نظر رکھا جائے تو واقعی مکہ والوں کے لئے رحمت ہی تھا ورنہ وہ ہمیشہ کفر و شرک اور جہالت کی تایرکیوں میں بھٹکتے رہتے۔ آج کا انسان بھی بہت سی ترقیات کے باوجود قرآن کریم کی رحمت کا محتاج ہے اور قرآنی اصول ہی ان کے لئے رحمت و کرم کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور قیامت تک یہ قرآن ساری انسانیت کے لئے رحمت ہی رحمت ہے۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس آیت میں فضل سے مراد قرآن کریم ہے اور رحمت سے مراد اس کے پڑھنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق ہے یہی مضمون حضرت براء بن عازب اور حضرت ابو سعید خدری سے بھی نقل کیا گیا ہے۔ حضرت عباس کی ایک روایت کے مطابق فضل سے مراد قرآن کریم ہے اور رحمت سے مراد نبی کریم رحمتہ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔ 5) قرآن کریم ایک مکمل دستور العمل ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس دنیا میں بعض چیزیں وہ ہیں جن سے رک جانا انسان کے حق میں بہتر ہے اور بعض وہ چیزیں ہیں جن کے کرنے سے دین و دنیا کی ساری بھلائیاں عطا کی جاتی ہیں۔ قرآن کریم کی یہ تعلیمات ایسی ہیں جو انسانوں کو راہ راست اور راہ ہدایت پر چلانے کا ذریعہ ہیں لہٰذا ایسی عظیم کتاب کے نازل ہونے پر انسان جتنی بھی خوشی کا اظہار کرسکتا ہے اس کو کرنا چاہئے۔ جتنی اس کی قدر کر سکات ہو وہ کرے اور اس کی سب سے بڑی قدر یہ ہے کہ قرآن کریم جن سچائیوں کو دنیا میں قائم کرنے کیلئے نازل کیا گیا ہے ان کو قائم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم اور سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل کرنے اور صحابہ کرام کو معیار حق و صداقت ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
Top