Baseerat-e-Quran - Yunus : 75
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى وَ هٰرُوْنَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ بِاٰیٰتِنَا فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ
ثُمَّ : پھر بَعَثْنَا : ہم نے بھیجا مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد مُّوْسٰى : موسیٰ وَھٰرُوْنَ : اور ہارون اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهٖ : اس کے سردار بِاٰيٰتِنَا : اپنی نشانیوں کے ساتھ فَاسْتَكْبَرُوْا : تو انہوں نے تکبر کیا وَكَانُوْا : اور وہ تھے قَوْمًا : لوگ مُّجْرِمِيْنَ : گنہگار (جمع)
پھر ہم نے ان رسولوں کے بعد فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف موسیٰ و ہارون کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا۔ پھر فرعونیوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم بن گئے۔
لغات القرآن آیت نمبر 75 تا 82 استکبروا (انہوں نے تکبر کیا، بڑائی کی) اجئتنا (کیا تو آیا ہے ہمارے پاس) لتلفتنا (تاکہ تو ہمیں ہٹا دے) الکبریاء (بڑائی، حکمرانی) ائتونی (آجائو، لے آئو، میرے پاس) القوا (تم ڈالو، تم پھینکو) سیطلہ (بہت جلد وہ اس کو برباد کر دے گا یحق (وہ ثابت کر دے گا) کرہ (برا سمجھا) تشریح : آیت نمبر 75 تا 82 مشرکین عرب نے حضور اکرم ﷺ کے ساتھ وہی معاملہ کیا جو حضرت نوح علیہ اسلام کی قوم نے ان کے ساتھ اور حضرت موسیٰ و حضرت ہارون کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم نے کیا تھا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین عرب کے سامنے ان انبیاء کرام کے واقعات اور جو سلوک ان کی قوم نے کیا تھا سامنے رکھ کر صاف صاف فرما دیا کہ اگر اس وقت کفار اور مشرکین نے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا دامن نہیں تھا ما یعنی وہ ایمان نہیں لائے۔ ان کی اطاعت و فرماں برداری نہ کی تو ان کا انجام بھی گزشتہ قوموں سے مختلف نہ ہوگا۔ ان آیات میں حضرت موسیٰ کا وہ واقعہ بیان کیا گیا ہے جب آپ نے فرعون کے سامنے دین حق کی سچائیوں کو رکھا تو اس نے حضرت موسیٰ کی بات ماننے کے بجائے ان پر طرح طرح کے الزامات لگا دیئے۔ یہاں تک کہ آپ کے معجزات کو اس نے جادو قرار دے کر ساری مملکت کے جادوگروں سے مقابلہ کرا دیا۔ سورة اعراف، سورة شعراء اور سورة قصص میں اس واقعہ کی کافی تفصیل ارشاد فرمائی گئی ہے یہاں ایک مرتبہ پھر اس واقعہ کو مختصر کر کے بیان فرمایا گیا ہے تاکہ ہر شخص کو یہ معلوم ہوجائے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے جب بھی حق و صداقت نکھر کر سامنے آتا ہے تو باطل اور جھوٹ مٹ جاتا ہے یا بےحقیقت ہو کر رہ جاتا ہے۔ فرعون کا اقتدار جو کئی نسلوں سے چلا آ رہا تھا حضرت موسیٰ کے زمانہ میں فرعون اقتدار کے نشے اور غرور وتکبر میں انتہا کو پہنچا وہا تھا کہ فرعون نے اپنے آپ کو ” رب اعلیٰ “ قرار دے لیا تھا، مفاد پرست درباریوں، امیروں اور وزیروں نے اس کے اس تکبر اور غرور کو اس حد تک بڑھا دیا تھا کہ جب حضرت موسیٰ نے اس کے بھرے دربار میں یہ اعلان کردیا کہ ایک بےبس انسان ” رب اعلیٰ “ نہیں ہو سکتا اور اس کو معبود کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ حضرت موسیٰ کے اس اعلان نے فرعون اور اس کے درباریوں کو ہلاک کر رکھ دیا اور اس نے وہی الزامات لگانے شروع کردیئے جو انسانوں کی گردن پر مسلط ظالم، جابر اور متکبر حکمراں کیا کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ موسیٰ کا مقصد صرف اس سرزمین پر اپنا اقتدار قائم کرنا ہے۔ معجزات دیکھ کر اس نے کہا کہ یہ جادو ہے اور میں اس جادو کا توڑ جادوگروں سے کرا سکتا ہوں۔ چناچہ اس نے لاتعداد جادوگروں کو بلا لیا اور انعام و اکرام کا لالچ دے کر ان سے یہ کہا کہ آج تم ایسا جادو دکھائو کہ موسیٰ بھرے دربار میں اپنی قیمت کھو بیٹھے۔ جادوگروں نے جمع ہو کر اپنے کمالات دکھانے شروع کردیئے لاٹھیاں، رسیاں اور چھڑیاں پھینکنی شروع کیں پورے دربار میں ہر جگہ محسوس ہوا جیسے سانپ ہی ساپن ہوں۔ اس کو عرف عام میں نظر بندی بھی کہتے ہیں۔ اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ بعض لوگ ایک خاص طریقہ پر محنت کر کے اپنی خیالی قوت کو اتنا مضبوط بنا لیتے ہیں کہ لوگوں کا خیال ان کے خیال اور تصور کے تابع ہوجاتا ہے۔ جب ایسا شخص کسی چیز کے خیال کو جما لیتا ہے تو ہر شخص کو وہی نظر آنے لگتا ہے جو وہ شخص چاہتا ہے۔ فرعون کے دربار میں ان جادوگروں نے اس کا مظاہرہ کیا۔ حضرت موسیٰ نے اور سب درباریوں نے اس منظر کو دیکھا تو درباری ان جادوگروں کے کمالات کے قائل ہوگئے لیکن حضرت موسیٰ نے اللہ کے حکم سے اپنے عصا کو زمین پر پھینکا تو وہ سچ مچ کا اژدھا بن گیا اور اس نے ان کے بناوٹی سانپوں کو نگلنا شروع کیا۔ اس وقت جادوگر سمجھ گئے کہ عصا کا اژدھا بن جانا جادو نہیں ہے بلکہ واقعی ایک کھلا ہوا معجزہ ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سب جادوگر اللہ کے سامنے سجدہ میں گر گئے اور وہ کفر سے توبہ کر کے ایمان کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔ یہ واقعہ فرعون کی بہت بڑی ذلت اور توہین تھی اس نے جادوگروں کو جو صاحب ایمان ہوچکے تھے ہر طرح کی سزاؤں اور پھانسی پر لٹکا نے کی دھمکیاں دیں مگر ایمان کی خصوصیت یہ ہے کہ جب ایمان کسی کے دل میں آجاتا ہے تو اس کو سوائے اللہ کے خوف کے اور کوئی خوف نہیں رہتا۔ انسانوں کا خوف اسی وقت تک ہوتا ہے جب تک انسان ایمان کی دولت سے محروم رہتا ہے جب وہ اس نعمت کو حاصل کرلیتا ہے تو اس کی زبان سے وہی کلمات نکلتے ہیں جو اس وقت فرعون کرلیا ہے۔ “ نبی کریم ﷺ کے اعلان نبوت کے بعد کفار عرب نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا اور نبی مکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام پر یہ الزامات لگانے شروع کردیئے لیکن سچائی پھر سچائی ہے اور ایک وقت وہ آیا کہ ان کفار نے نبی مکرم ﷺ کے صحابہ کو ہر طرح ستایا پریشان کیا لیکن ان کے ایمان کی قوت نے ان کو اتناسربلند کیا کہ فرعون کی طرح غرور وتکبر کے نشے میں مست لوگوں کو حضور اکرم ﷺ کی عظمت کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا۔
Top