Baseerat-e-Quran - Yunus : 86
وَ نَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ
وَنَجِّنَا : اور ہمیں چھڑا دے بِرَحْمَتِكَ : اپنی رحمت سے مِنَ : سے الْقَوْمِ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور ہمیں اپنی رحمت کے ذریعہ کافروں کی قوم سے نجات عطا فرمائیے گا۔
لغات القرآن آیت نمبر 93 تا 86 ذریۃ (اولاد، لوگ) ان یفتھم (یہ کہ وہ کسی آزمائش یا تکلیف میں نہ پڑجائیں) عال (غلبہ وقوت رکھنے والا) المسرفین (حد سے بڑھنے والے) تو کلوا (تم بھروسہ کرو، تو کل کرو) لاتجعلنا (تو ہمیں نہ بنانا نجنا (ہم کو نجات دے ) تشریح : آیت نمبر 83 تا 86 حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص تن تنہا اتنی جرأت نہیں رکھتا کہ وہ معاشرہ کے ہر جھوٹ اور باطل سے ٹکرا جائے لیکن جب بھی حق اور سچائی کی بات کہی جاتی ہے تو کچھ سعادت مند لوگ اس سچائی کو دل سے قبول کرلیتے ہیں وہ اس کا اظہار تو نہیں کرسکتے لیکن جب ماحول سازگار ہوتا ہے تو وہ اس قلبی کیفیت کا اظہار کرتے ہیں اور پھر فوج در فوج اس تحریک کو قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔ فرعون ایک انتہائی ظالم و جابر حکمراں تھا جس نے ظلم و ستم بربریت اور بد اخلاقی کے ہر ہتھیار کو بنی اسرائیل کے خلاف بےدریغ استعمال کیا، بین اسرائیل کی نسل کو ختم کرنے کے لئے اس نے ماؤں کی گود سے ان کے بیٹوں کو چھین چھین کر ذبح کرنا شروع کردیا، وہ لڑکوں کو ذبح کرتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ رکھتا تھا۔ اس کے ظلم و ستم سے بنی اسرائیل اس قدر فوف زدہ تھے کہ اتنے بڑے ظلم و جبر کے سامنے وہ اف تک کرنے کی جرأت نہیں رکھتے تھے اور تڑپ کر رہ جاتے تھے مگر اللہ کا قانون یہ ہے کہ جب ظلم اپنی حد سے بڑھ جاتا ہے تو پھر اس کو مٹانے کے لئے اہل ایمان اور حق و صداقت کے پیکر صاحب کردار لوگوں کو کھڑا کر دیات ہے وہ اگرچہ بظاہر کمزور ہوتے ہیں لیکن ان کے دل میں ایمان کی روشنی سے وہ طاقت آجاتی ہے جس سے وہ بڑی سے بڑی طاقت کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔ ان کے ایمان و اخلاص کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ وہ اسباب پیدا فرما دیتا ہے جس سے ان کے راستے کی ہر رکاوٹ دور ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے اس ظلم و بربریت کے مقابلے میں حضرت موسیٰ اور ان کے بڑے بھائی حضرت ہارون کو بھیج دیا۔ حضرت موسیٰ نے ایک ہی بات فرمائی کہ ایمان ہی وہ قوت ہے جس کے ذریعے فرعون کے ظلم کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے مگر بنی اسرائیل سچائیک و ماننے کے باوجود اس قدر خوف و دہشت میں مبتلا تھے کہ وہ حضرت موسیٰ کا کھل کر ساتھ نہیں دے سکتے تھے جب فرعون کے دربار میں جادوگروں نے برملا اپنے ایمان کا اظار کیا اور انہوں نے سزا کا ہر خوف دل سے نکال کر اپنے مومن ہونے کا اعلان کیا تو فرعون اس جرأت و ہمت پر حیران رہ گیا اور پھر اس نے اور اس کے سرداروں نے بھی کھل کر ظلم کی انتہا کردی اور وہ مظالم ڈھائے جس کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے۔ حضرت موسیٰ ان صاحبان ایمان بنی اسرائیل کو ایک ہی بات سمجھاتے کہ اگر تم مومن ہو تو گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ اللہ بہت طاقت والا ہے۔ اس کی طاقت کے سامن کسی کی کوئی طاقت و قوت نہیں ہے۔ اس پر بھروسہ کرو، وہی سننے والا اور تمہاری مدد کرنے والا ہے۔ ان اہل ایمان کا بھی یہی جواب ہوتا تھا کہ ہم اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں اور یہ دعائیں کرتے تھے کہ اے اللہ ہمارے وجود کو خیر اور سلامتی کا ذریعہ بنا دے اور ہمیں ان ظالموں کا چارہ بننے سے محفوظ فرما۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس فریاد کو سن کر ان کو وہ طاقت عطا فرمائی کہ فرعون اور اس کی خوشامدی درباری خاک میں مل گئے۔ ان آیات میں فرعون کے جس ظلم و ستم، بربریت اور انسانیت سوز حرکتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے وہیں ان آیات میں کفار عرب کو یہ اشارہ بھی دے دیا ہے کہ ایمان و اخلاص کے سامنے فرعون جیسی طاقت تباہ و برباد ہوگئی۔ اگر تم بھی فرعون کے راستے پر چلتے ہوئے نبی مکرم ﷺ اور ان کے جاں نثار صحابہ کرام پر ظلم و ستم کرو گے تو یاد رکھو یہ ظلم کی کالی رات بہت جلد ختم ہونے والی ہے اللہ پر ایمان اور تولک رکھنے والے اگرچہ خالی ہاتھ ہوتے ہیں ان کے پاس دنیاوی کوئی طاقت نہیں ہوتی لیکن وہ بڑی سے بڑی طاقت کو ملیا میٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اللہ کی سنت یہی ہے کہ وہ مظلوموں کے ذریعہ ظالموں اور ان کے ظلم کو مٹا کر چھوڑتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں اعلان نبوت کے بعد نبی مکرم ﷺ اور صحابہ کرام پر کفار و مشرکین نے جو مظالم ڈھائے اور ظلم کی انتہا کردی صحابہ کرام کے ایمان کی طاقت ایک سیلاب بن کر ان کفار کو بہا کرلے گئی اور فتح مکہ کے دن وہ ظالم اپنی سزا کے اعلان کے منتظر تھے مگر نبی مکرم ﷺ نے جو پیغمبر انسانیت ہیں یہ کہہ کر سب کو حیرت میں ڈال دیا کہ ” جائو تم سب آزاد ہو، آج تم سے کوئی انتقام اور بدلہ نہیں لیاج ائے گا۔ “ اللہ نے یہ دکھا دیا کہ بالآخر وہی لوگ کامیاب و بامراد ہوتے ہیں جو ایمان، عمل صالح اور تقویٰ پر پرہیز گاری کے پیکر ہوتے ہیں۔
Top