Baseerat-e-Quran - Yunus : 98
فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ١ؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ
فَلَوْلَا : پس کیوں نہ كَانَتْ : ہوتی قَرْيَةٌ : کوئی بستی اٰمَنَتْ : کہ وہ ایمان لاتی فَنَفَعَهَآ : تو نفع دیتا اس کو اِيْمَانُهَآ : اس کا ایمان اِلَّا : مگر قَوْمَ يُوْنُسَ : قوم یونس لَمَّآ : جب اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے كَشَفْنَا : ہم نے اٹھا لیا عَنْھُمْ : ان سے عَذَابَ : عذاب الْخِزْيِ : رسوائی فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَمَتَّعْنٰھُمْ : اور نفع پہنچایا انہیں اِلٰى حِيْنٍ : ایک مدت تک
کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ ایمان لانا ان کو نفع دیتا سوائے یونس کی قوم کے۔ جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان پر سے دنیا کی زندگی کا عذاب ٹال دیا اور ان کو ایک مدت تک سامان زندگی عطا کیا۔
لغات القرآن آیت نمبر 98 تا 103 قریۃ (بستی ، آبادی) کشفنا (ہم نے کھول دیا، ہٹا دیا ) الخزی (رسوائی) متعنا (ہم نے سامان دیا) حین (زمانہ، مدت) تکرہ (تو زبردستی کرے گا) یجعل (وہ بناتا ہے، ڈالتا ہے) الرجس (گندگی) لایعقلون (سمجھ نہیں رکھتے ہیں انظروا (تم دیکھو ) ماتغنی (کام نہیں آئی) النذر (ڈرانا، دھمکانا) ینتظرون (وہ انتظار کر رہے ہیں تشریح : آیت نمبر 98 تا 103 اللہ تعالیٰ نے انسان کو خشکی اور تری میں برتری اور اس کائنات کی ہر مخلوق سے زیادہ عظمت عطا فرمائی ہے لیکن اس کی بنیادی کمزوری یہ ہے کہ وہ دنیا کے معاملات میں الجھ کر اس قدر غافل ہوجاتا ہے کہ اس کو آخرت کی یاد ہی نہیں آتی اور بھول کر وہ اپنے خالق ومالک سے دور ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ کی ذات وصفات کا یا انکار کردیتا ہے یا شرک کی اس انتہا تک پہنچ جاتا ہے جہاں رب العالمین کے ساتھ سینکڑوں جھوٹے معبودوں کو شریک کرلیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پھر بھی اپنے پاکیزہ نفس انسانوں کو ان کی ہدایت کے لئے بھیجتا ہے تاکہ ان کی آنکھوں سے غفلت اور بےحسی کے پردے ہٹ جائیں اور قعل و فکر اور سجھ سے کام لے کر ایمان اور عمل صالح کی زندگی اختیار کرلیں۔ لیکن جب وہ قوم اور اس کے افراد مسلسل انکار اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کسی طرح بھی ایمان اور عمل صالح پر نہیں آتے تب اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کی بد دعاؤں کو قبول کر کے اس قوم پر عذاب مسلط کر دیات ہے۔ اگر کوئی شخص یا قوم عذاب، اور موت کے فرشتے کے سامنے آنے سے پہلے پہلے توبہ کرلیتی ہے اور اپنے اعمال کی اصلاح کرلیتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان سے عذاب ہٹا لیتا ہے ورنہ ان کو ایسی کڑی سزا دیتا ہے جس کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے جو لوگ اس فرصت عمل سے فائدہ اٹھا کر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کرلیتے ہیں ان کو نہ صرف اس دنیا کی کامیابیاں عطا کردی جاتی ہیں بلکہ آخرت کی تمام نعمتوں سے نواز دیا جاتا ہے ابھی آپ نے گزشتہ آیات میں ملاحظہ کرلیا ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون نے فرعون کو ہر طرح سمجھایا ، معجزات دکھائے مگر وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی اور جما رہا بالآخر اللہ تعالیٰ نے قوم بنی اسرائیل کو جس سمندر میں راستے بنا کر دوسرے کنارے پر پہنچا دیا تھا اسی سمندر اور اس کے راستوں میں فرعون کے سارے لشکر اور فرعون کو ڈبو دیا تھا۔ جب فرعون ڈوبنے لگا اور اس نے یہ دیکھ لیا کہ اب موت کے فرشتے سامنے ہیں اس وقت اس نے توبہ کرنے کی کوشش کی اور اور بنی اسرائیل کے رب پر ایمان لانے اور مسلم بن جانے کی درخواست کی مکر اللہ کے قانون کے مطابق اب تو بہ کا وقت نکل چکا تھا۔ اس کی توبہ قبول نہیں کی گئی اس کو تو نجات نہیں ملی مگر اللہ نے آنے والی نسلوں کے لئے یہ سامان عبرت ضرور مہیا کردیا کہ اس کے بدن کو نجات دیدی تاکہ ہر شخص اس فرعون کی بےبسی کا تماشا کرسکے جس نے خود اپنے آپ کے لئے ” رب اعلیٰ “ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ اس کے برخلاف قوم یونس جس نے عذاب کے آثار دیکھ کر پہلے ہی توبہ کرلی تھی ایمان اور عمل صالح پر قائم رہنے کا وعدہ کرلیا تھا تو اس قوم کو اللہ کے عذاب سے نجات مل گئی تھی۔ حضرت یونس نے نینوا کے لوگوں کو ہر طرح سمجھایا کہ وہ کفر و شرک سے توبہ کرلیں مگر ان پر غفلتوں کے پردے پڑے ہوئے تھے اور انہوں نے حضرت یونس کی کوئی بات نہ سنی آخر کار اس قوم سے مایوس ہو کر انہوں نے پروردگار کی بارگاہ میں یہ عرض کردیا کہ الٰہی یہ لوگ کس طرح کفر و شرک سے باز نہیں آتے اب آپ ان کا فیصلہ فرما دیجیے اللہ جو بندوں پر زبردستی نہیں کرتا بلکہ ان کو مہلت عمل اور ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے جب اللہ کے نبی ان سے مایوس ہو کر فیصلے کی درخواست کرتے ہیں تو وہ ان کی دعا کو قبول کرلیتا ہے اور اس قوم کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ دعا کرکے حضرت یونس نے فرما دیا کہ تین دن اور رات کی مہلت دی گئی ہے۔ اگر تم نے توبہ نہ کی تو اللہ کا عذاب تمہارے اوپر مسلط کردیا جائے گا۔ حضرت یونس اس دن جب کہ عذاب مقدر کردیا گیا تھا اپنے اہل خانہ کے ساتھ یہ سوچ کر نکل کھڑے ہوئے کہ اب تو اس قوم پر عذاب آنے والا ہے یہاں سے نکل جانا چاہئے۔ چناچہ حضرت یونس اپنے اہل خانہ کے ساتھ کسی دوسرے بستی کے لئے روانہ ہوگئے۔ ادھر اللہ کے فیصلے کا دن آگیا آسمان پر قیامت خیز سیاہ اور ہیبت ناک بادل چھا گئے جو آہستہ آہستہ ان کی آبادیوں کے قریب آتے جا رہے تھے۔ اب اس قوم کو فکر ہوئی پہلے تو انہوں نے حضرت یونس کو تلاش کیا جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ حضرت یونس جا چکے ہیں تو ان پر اور بھی گھبراہٹ طایر ہوگئی پوری قوم نے عذاب کے آثار کو محسوس کرلیا تھا لہٰذا اس قوم کے سارے مرد عورتیں بچے اپنے مویشی لے کر ایک بہت بڑے میدان میں جمع ہوگئے۔ وہاں انہوں نے رونا چلانا اور چیخنا شروع کردیا اور اللہ سے معافی مانگنی شروع کردی۔ وہ روتے چلاتے چیخیں مارتے اخلاص سے اللہ کو پکار رہے تھے اللہ تعالیٰ کو ان پر رحم آگیا اور وہ عذاب جو چند لمحوں میں آنے والا تھا اس کو روک دیا گیا۔ کیونکہ پوری قوم نے اجتماعی طور پر اپنے گناہوں ، کفر و شرک پر شرمندگی کا اظہار کر کے ایمان و عمل صالح کا وعدہ کرلیا تھا۔ پھر بعد میں حضرت یونس بھی بہت سی تکلیفیں اٹھا کر اپنی قوم میں واپس آگئے اور قوم کی اصلاح کی جدوجہد میں لگ گئے۔ ان آیات میں نبی کریم ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اے نبی ﷺ بیشک آپ کی تمنا اور خواہش یہ ہے کہ سارے عرب والے ایمان لا کر اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار بن جائیں اور یہ آپ کی کوئی بات نہیں سنتے لیکن آپ ان کی بدعملیوں پر رنجیدہ یا مایوس نہ ہوں کیونکہ اللہ کا یہ قانون موجود ہے کہ وہ کسی پر زبردستی نہیں کرتا اگر وہ چاہتا تو ساری دنیا کے انسان فرشتوں کی طرح صرف اہل ایمان ہوتے لیکن اللہ نے انسان کو غور و فکر اور تدبر کرنے کے لئے عقل جیسی نعمت عطا فرمائی ہے اگر وہ گزشتہ انبیاء کرام کے واقعات سے عبرت و نصتحہ حاصل نہیں کرتا تو اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ کی سنتا ور طریقہ آج بھی تبدیلی نہیں ہوا اگر وہ اپنے کفر و شرک سے توبہ نہیں کریں گے تو اللہ ان کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ پھینکے گا۔ وہ اللہ کا کچھ بھی نہ کرسکیں گے۔ وہ اپنے نبی ﷺ اور ان کے ماننے والے اطاعت گذاروں کو نجات عطا فرما دے گا۔ اس میں کفار عرب سے بھی کہا جا رہا ہے کہ اب اللہ کے آخر نبی اور رسول بھیج دیئے گئے ہیں۔ ان کو سنبھلنے کا آخری موقع دیا گیا ہے۔ اگر انہوں نے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا اپنی غفلتوں اور کفر و شرک میں اسی طرح لگے رہے جس طرح پہلی قوموں کو نجات نصیب نہیں ہوئی تمہیں بھی نصیب نہ ہوگی۔ ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ : 1) دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے نہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور نہ اس کے رسول کی طرف سے ہر طرح کے نتائج پر غور کر کے ہر شخص ایمان لائے یا نہ لائے بہرحال اس کے اعمال کے مطابق فیصلہ کیا اجئے گا۔ 2) ایمان جیسی نعمت و دولت کا حاصل کرنا اللہ کے اذن پر منحصر ہے۔ لیکن یہ اذان کے لئے ہے جو اپنی فہم و فراست اور عقل و فکر کو استعمال کرتے ہیں۔ 3) لیکن وہ لوگ جو اپنی آنکھوں، کانوں اور دل و دماغ پر غفلت کے پردے ڈالے ہوئے ہیں ان کو نجات اور گندگی میں مبتلا رہنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ 4) اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ وہ کفار و مشرکین کو آخر کار ان کے انجام تک پہنچا دیتا ہے اور وہ لوگ جو اللہ و رسول کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کرتے ہیں ان کو نجات عطا فرما دیتا ہے۔ 5) جو لوگ گزشتہ قوموں کے واقعات پر غور نہیں کرتے اور اپنی روش زندگی کو تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! ان سے کہہ دیجیے کہ ہم بھی انتظار کرتے ہیں تم بھی انتظار کرو۔ وہ وقت دور نہی ہے جب اللہ تعالیٰ کفار و مشرکین کو ان کے برے انجام تک پہنچا دے گا اور اپنے رسولوں اور ان پر ایمان لانے والوں کو دنیا اور آخرت میں نجات عطا فرما کر ہر نعمت سے نواز دے گا۔
Top