Baseerat-e-Quran - At-Takaathur : 8
ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۠   ۧ
ثُمَّ : پھر لَتُسْئَلُنَّ : تم پوچھے جاؤگے يَوْمَئِذٍ : اس دن عَنِ النَّعِيْمِ : نعمتوں کی بابت
پھر تم سے اس دن ان نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جن میں تم لوگ رہا کرتے تھے۔
تعارف : تین آیات پر مشتمل اس چھوٹی سی صورت پر جتنا بھی غور و فکر کیا جاتا ہے اس میں معانی اور حقائق کی ایک دنیا جھلکتی نظر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں عصر کی قسم کھائی ہے۔ عصر کے معنی نماز عصر، تاریخ انسانی، زمانہ یا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے دور کی قسم کھا کر یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کے سارے لوگ اس وقت تک دنیا اور آخرت میں سخت ناکام ہیں جب تک وہ ایمان لا کر عمل صالح اختیار نہ کریں۔ اگر انسانی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں دو ہی قسم کے انسان نظر آتے ہیں کامیاب یا ناکام ۔ دنیا والوں نے تو کامیابی اور ناکامی کید و پیمانے مقرر رکھتے ہیں کہ جو شخص خوب مال و دولت کما کر اونچی سے اونچی بلڈنگیں تعمیر کرلے۔ اس کے آگے پیچھے گھومنے والے سیکڑوں آدمی ہوں تو وہ کامیاب ہے اور اگر کوئی شخص ایمان داری اور اپنے اخلاص، نیک نیتی اور حسن اخلاق کے باوجود غریب اور مفلس ہے تو وہ ناکام آدمی شمار کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ معیار بتایا ہے کہ ہر انسان اس وقت تک سخت ناکام ہے جب تک وہ ایمان اور عمل صالح کی زندگی اختیار نہ کرلے۔ کامیاب وہ شخص ہے جس کی دنیا اور آخرت دونوں بہتر ہوں اور وہ شخص سخت ناکام ہے جو مال و دولت اور دنیاوی وسائل کمانے کے باوجود دنیا میں اللہ کے عذاب کا شکار ہو اور قیامت میں ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بن جائے۔ قوم عاد، قوم ثمود، قوم فرعون وغیرہ دنیا کی وہ قومیں ہیں جنہوں نے ہزاروں سال تک دنیا پر حکومتیں کی ہیں۔ دنیا بھر کے وسائل ان کے پاس تھے۔ مال و دولت اور خوش حالی کی کمی نہ تھی لیکن جب انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی انتہا کردی اور اللہ کے پیغمبروں کو جھٹلایا تو وہ قومیں اللہ کے عذاب کا شکار ہوگئیں۔ ان کا مال و دولت، اونچی اونچی بلڈنگیں، تاج و تخت اور افراد کی کثرت ان کو عذاب الٰہی سے نہ بچا سکے۔ یہ تو دنیا کا معاملہ ہے آخرت میں ان پر دائمی عذاب یہ ہوگا کہ ان کو بھڑکتی آگ میں ڈال کر جہنم کو اوپر سے بند کردیا جائے گا۔ اللہ کی نظر میں یہ ناکام لوگ ہیں۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو وسائل کے اعتبار سے کمزور تھے لیکن ایمان اور عمل صالح کی دولت سے مالا مال تھے وہ دنیا میں بھی سرخ رو ہوئے اور آخرت میں انہیں ہمیشہ کی راحتیں، آرام و سکون اور عیش و عشرت کے سامان عطا کئے جائیں گے یہ لوگ دنیا اور آخرت میں کامیاب ترین لوگ ہیں۔ اگر عصر سے رماد نبی کریم ﷺ کا زمانہ لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جو لوگ اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد ﷺ پر ایمان نہیں لائیں گے وہ گذشتہ قوموں کی طرح اس طرح ناکام ہوں گے کہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ ذلتوں کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن جو لوگ نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت پر ایمان لا کر عمل صالح کی زندگی اختیار کریں گے وہ دنیاوی اسباب کے لحاظ سے کتنے ہی کمزور کیوں نہ ہوں وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ کامیاب ہوں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنہوں نے حضور اکرم ﷺ پر ایمان لاکر آپ ﷺ کی اطاعت کرتے ہوئے عمل صالح کا راستہ اختیار کیا وہ دنیا کے کامیاب ترین لوگ شمار کئے گئے ہیں۔ ان کی شان اور عظمت یہ ہے کہ ان صحابہ کرام ؓ کی طرف نسبت کرنے پر ہر شخص فخر محسوس کرتا ہے لیکن وہ لوگ جو ایمان اور عمل صالح کی ہر نعمت سے محروم رہے آج وہ اس طرح مٹ گئے ہیں کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہیں ہے۔ اگر کچھ نام زندہ ہیں تو وہ بھی قرآن کی وجہ سے ہیں۔ لیکن کتنی افسوسناک حقیقت ہے کہ کوئی بھی ان کی طرف نسبت کرنے کو پسند نہیں کرتا۔
Top